شبِ برأت

……… تحریر: مفتی غیاث الدین……
شعبان المعظم کی پندرھویں شب کو ’’شبِ برأت‘‘ کہا جاتا ہے ،اس شب کے متعلق ہمارے معاشرے میں دو طرح کی انتہائیں پائی جاتی ہیں، ایک انتہا ء میں وہ لوگ نظر آتے ہیں جنہیں متشددین کہا جاتا ہے ۔ یہ لوگ شبِ برأ ت کی نہ صرف فضیلت کا انکار کرتے ہیں بلکہ اس رات کی عبادت کو بھی بدعت قرار دیتے ہیں، اس رات کی فضیلت کے بارے میں جو بھی روایات ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں ان کو بیک جنبشِ قلم و زبان موضوع، مردود اور ناقابلِ اعتبار قرار دے کرایک طرف کرتے ہیں۔ دوسری انتہاء میں وہ جاہل لوگ ہیں جنہوں نے اتبا عِ نفس میں بہت ساری رسومات کو بھی اس رات کا حصہ قرار دے کر باعثِ اجر و ثواب سمجھا ہے۔ظاہر ہے کہ حق بات ان دونوں انتہاوں کے بیچ ہے۔
شبِ برأت سے متعلق کتبِ حدیث میں بہت ساری روایات مذکو ر ہیں، چنانچہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’یطلع اللہ الی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ الا لمشرک او لشاحن‘‘(الترغیب والترھیب ۲۷۶۷)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنے ساری مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور سب (انس و جن ) کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے مشرک او کینہ پرور کے‘‘۔
حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آ پ ﷺ نے فرمایا:
’’ان اللہ یطلع علی عبادہ فی لیلۃ النصف من شعبان فیغفر للمستغفرین ویرحم المسترحمین و یؤخر اھل الحقد کما ھم‘‘
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنے ساری مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،بخشش طلب کرنے والوں کو بخش دیتے ہیں اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں ،اور بغض رکھنے والوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔
اس طرح کی اور بھی بہت ساری روایات سے شبِ برأت کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض روایات سند کے اعتبار سے اگر چہ کچھ کمزور ہیں لیکن اصولِ حدیث کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک روایت سند کے اعتبار سے اگر کمزور ہو لیکن دوسری روایات سے اس کی تایید ہوتی ہو تو اس کی کمزوری دور ہوجاتی ہے ۔اس لئے ان ساری روایات کو ضعیف کہہ کر شبِ برأت کی فضیلت کا انکار کرنا اصولِ حدیث کے مسلمہ قاعدہ کے بھی خلاف ہے۔
اب رہی یہ بات کہ اس رات میں کونسی عبادت زیادہ افضل ہے یا مسنون؟ اس بارے میں علمائے کرام کی تحقیق یہ ہے کہ اس رات میں نفلی نمازیں، تلاوت ،ذکر جو بھی عبادت ہو سکے کرنی چاہئے کوئی مخصوص عبادت مشروع نہیں۔نیز کتنی رکعات پڑھنا افضل ہے ؟ یا کونسی سورت پڑھنا زیادہ باعثِ اجر و ثواب؟ اس بارے میں بھی کوئی حد بندی نہیں ۔بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بارہ رکعات پڑھنی چاہئے اس طرح کہ ہر رکعت میں تیس دفعہ سورہ اخلاص پڑھے،یہ بات بالکل بے بنیاد ہے،جتنی رکعات آسانی سے ہوسکیں پڑھنی چاہئے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔