دیوانوں کی باتیں…آنسو اتنے نکلے کہ دل بھی دُھل گیا

…………تحریر: شمس الحق قمر…..

انسان زندگی میں عجیب و غریب واقعات سے گزرتا ہے۔میری رہائش گلگت جٹیال میں واقع ہے۔ جٹیال گلگت کے پہاڑوں کے عین دامن میں واقع زمانہ قدیم کا ایک سیلاب زدہ علاقہ ہے جٹیال میں کچھ جگہے ایسی ہیں جہاں لوگوں نے بنجر زمین کو کھود کھود کر کھرج کھرج کر زمین کا سخت سینہ اتنا نرم کیا ہوا ہے کہ یہاں ہر چیز اُگتی ہے ۔ جٹیال میں جو علاقہ آباد کاری کی وجہ سے کاشت کاری کے قابل اور سر سبز و شاداب ہے وہ خومر کہلاتا ہے۔ لیکن خومر سے ملحق جنوب مشرق کی طرف جٹیال کا جو علاوہ ہے وہ آبپاشی کے لئے پانی کے مستقل نظام کے عدم وجود کی وجہ سے سر سبزوشاداب پگڈنڈیوں، درختوں اور لہلہاتے کھیتوں سے عاری ہے تاہم گلگت سے باہر کے لوگوں نے یہ بنجر زمینیں گلگت کے بو می با شندوں سے خرید کر یہاں بڑے پیمانے پر رہایشی عمارتیں کھڑی کی ہیں۔ انہی رہائشی مکانات میں ایک کرائے کا مکان میرا بھی ہے جس میں، میں گزشتہ پندرہ سالوں سے رہائش پذیر ہوں۔ محل وقوع بتانے کا میرا منشا ئ یہ ہے کہ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں شجر کاری اتنی خوب نہیں ہوتی جیسیخومر میں ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھییہاں مختلف پرندوں کی چہچہانے کا تسلسل بر قرار ہے ۔
آج صبح میری آنکھ جب کھلی تو صبح کے ساڑھے چار بج رہے تھے میری آنکھ بے شمار پرندوں کی چہچہاہٹ سے کھلی تھی۔ جن پرندوں کی آوازوں کی پہچان ہوتی تھی اُن میں: مایوں، ٹیوف، چلینگی، کھنجوڑ، گلگتو پیر (گلگتو پیر، ایک پدنرے کاکھوار نام ہے) چیلی بختو، طوطی، شریکی، مینا اور کلکور (فاختہ) کی عبادات نمایاں تھیں۔ میں نے بھی دل ہی دل میں اُس رب کا شکریہ اُس کی تمام دی ہوئی نعمتوں کے لئے ادا کیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا، باہر نکل گیا۔ جیسے ہی باہر نکلا تو میری نظر میرے صحن میں پھدکتے اور خوشی سے اپنے پروں کو پھڑ پھڑاتے ہوئے کئی ایک معصوم فاختوں پر پڑی۔ جس بات سے مجھے حیرت آمیز خوشی ہوئی وہ یہ تھی کہ یہ فاختے مجھے اپنا دشمن نہیں سمجھ رہے تھے وہ ایک نظر مجھے دیکھتے اور ایک نظر زمین پر موجود دانوں کی طرف دیکھتے، دانہ چگتے اور پھر میری طرف دیکھتے۔ گویا مسکراتے تھے۔مجھے ایسا لگا کہ میرے اُن پر مہربان ہونے پر وہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہے تھے کہ یا رب! تو نے جو انسان بنایا ہے وہ پُر امن ہے جس کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے ۔ میں نے سوچا کہ اگر میں کوئی بندوق بردار انسان ہوتا تو شاید وہ معصوم پرندے مجھ میں پیار نہ دیکھپاتے لیکن مجھے بار بار محسوس ہوتا رہا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس اپنائیت میں مجھے اتنا مزہ آیا کہ میری آنکھیں پر نم ہوگئیں اور میں سچ مچ میں رونے لگا۔ اللہ رب لعزت نے کتنی کمال کی مخلوق پیدا کی ہے اور وہ خود کتنی خوبصورت ذات ہوگی، کتنی بڑی ذات ہوگی اور کتنی مہربان ذات ہوگی ۔ ہر مخلوق اپنے اندر ایک الگ دنیابسی ہوئی ہے۔ صبحانہ اللہ۔ ”تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں ٌکوجھٹلاو گے“
مزے کی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے یعنی آج سے ۰۲ سال پہلے جب میں چترال میں تھا (میرا گاؤں بونی ہے) یہی کوئی اپریل کا دوسرا ہفتہ تھا۔ اُن دنوں میں بونی پولو گرونڈ کے قریب ایک پرائیوٹ سکول میں درس تدریس سے وابستہ تھا۔ میرے گھر سے سکول تک ۰۲ منٹ کا فاصلہ ہے، سکول کی جانب چلتے چلتے کئی ایک اطراف سے بندوقیں چلنے کیشر انگیز آوازیں سماعتوں سے ٹکراتی رہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے علاقے کی بہار دیکھنے کے لئے کسی غیر ملک (غالباً روس) سے مہمان فاختوں کی پہلی جھنڈ وارد ہوئی تھی اور ہمارے لوگ آمن و آشتی کی اِن پیامبروں پر گولہ بارود کی بارشیں بر سا رہے تھے۔ لیکن دلگداز منظر یہ تھا ک دفعتاً ایک سہمے ہوئے فاختے پر میری نظر پڑی۔ اُس کی پرواز میں کوتاہی تھی ، لگتا تھا کہ اُس ننھے پرندے کے جسم پر کئی ایک گہرے گھاو ہیں جس کی وجہ سے اُس کی پرواز میں خلل ہے ۔ آخریہ معصوم،بے گناہ ، بے زبان اور ننھا سا زخمی پرندہ کب تک فضا ئ میں معلق رہتا۔ زخموں سے چور چور جسم اور مسلسل اُڑان کی وجہ سے انتا تھکا ہوا تھا کہ اپنے آپ کو گرانے کے سوا اُس کے پاس کوئی اور چارہ کار نہیں تھا۔ فاختے کے گرتے ہیں دو بندوق بردار ہانپتے کانپتے اپنے شکار تک پہنچ گئے۔ ایک نے کہا ”پہلے اس پر میں نے گوئی چلائی تھی یہ شکار میر ا ہے“۔ دوسرے نے کہا نہیں ”میں نے گولی چلائی تھی یہ شکار میرا ہے“ میں قریب سے گزر رہا تھا میں نے دیکھا تو فاختہ اپنی خوفزدہ مگر بلا کی خوبصورت نظروں سے بے بسی کے عالم میں سراپا معصوم بن کر دونوں ظالم شکارویوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھ سے بردشت نہیں ہو پا راتھا میں نے اپنی آنکھیں بند کیں۔
آج جب اپنے صحن میں فاختوں کو یوں مستی میں دیکھا تو خوشی کے آنسو اتنے نکلے کہ دل بھی دھل گیا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔