دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(مکافات عمل )

تحریر: شمس الحق قمر ؔ
آج کل ریڈیو ، ٹیلی وژن، اخبار،کتابوں اور یہاں تک کہ ہر زبان پر عالمی حدت اور اُس سے پیدا ہونے والے مضر اثرات اور شدید خطرات کے قصے عام ہیں۔ میں نے از راہ تفنن فزکس کے ایک ٹیچر سے پوچھا کہ یہ گلوبل وارمینگ یا عالمی حدت آخر چیز ہے کیا ؟ انہوں نے میرے سوال پر بہت سنجید گی سے غور کیا اور جواباً کہنے لگے کہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے زمین کی حفاظت پر مامور محافظ کہ جسے سائنس کی زبان میں اوزون کہا جاتا ہے( زمین کے ارد گر گیس سے بنی ایک محافظ چادر) ، کی صحت بری طرح متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے سورج کی زہریلی شعاعیں بغیر کسی روک تھام ، رکاوٹ یا جامہ تلاشی کے اوزون کی دیواروں کو پھلانگ کر زمین کے اندر داخل ہوتی ہیں ( لفظ ’’ جامہ تلاشی‘‘ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے شہروں میں ہمارے فوجی بھائی ہماری جامہ تلاشی کے بعد ہمیں اپنے گھروں کی طرف جانے کی ا جازت دیتے ہیں ۔ انہیں جب کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ہے تو وہ ہمیں شریف شہری سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں یہ ہماری جان اور عزت کی حفاظت کا ایک انداز ہے ) سورج کی ان مضر صحت شعاعوں کے اندر داخل ہونے سے نہ صرف ہماری زمین گرم ہوتی ہے بلکہ اور بھی کئی ایک بے شمار مصیبتوں سے دوچار ہونے کے خدشات کا اندیشہ ہے جن میں کبھی وقت بے وقت زیادہ بارشیں ، کبھی خشک سالی، زلزلے ، آسمانی پتھروں کا زمین سے ٹکرا نے کے علاوہ ہزاروں نئے امراض کا خطر ناک سلسلہ شامل ہے ۔ فزکس کے اُس کافر خیا ل ٹیچر کی خوفناک باتیں سن کر میرا پورا جسم پسینے سے شرابور ہوا پھر خیال آیا کہ اگر واقعتاً ایسا ہوا تو میرا انجام کیا ہوگا ؟ اپنی زندگی کے ہولنا ک خاتمے پر سوچتے ہوئے کئی ایک سوالات دل میں ابھرنے لگے :
بہت ممکن ہے کہ میں شدید زلزلے کے نتیجے میں زمین میں پڑنے والے دراڑوں میں میلوں نیچے گر کے موت کو گلے لگاؤں گا ، ہو سکتا ہے سیلاب میں بہہ کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاؤں گا ، شدید گرمی سے میرا کام تمام ہو گا، شدید ٹھنڈ سے کانپتے مروں گا یا آسمانی پتھروں کی یورش کی زد میں آکے نیست و نابود ہو جاوں گا ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ پھر یکایک خیال آیا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو ساری مصیبتیں مجھ پر تو نہیں گریں گی۔ اور بھی تو لوگ ہیں۔ اس دنیا میں صرف میں ہی نہیں رہتا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور تسلی دی کہ مجھے آخرکیوں ڈرنا چاہئے آخر اس کائینات کے بنانے والے کی بھی تو کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ اتنی بڑی کائنات کو سنبھالادیا ہوا ہے تو کیا اتنی چھوٹی زمین کہ جس کی مثال کائنات کی نسبت سے ریت کے ایک ذرے کی سی ہے ، نہیں سنبھال سکتا ؟۔۔۔۔۔ میں نے اُمید و بیم کے عالم میں دوسرا سوال بھی جھونک دیا ؟ سائنس کے نیم کافر ٹیچر نے خلاف توقع جواب دیتے ہوئے کہا ’’ میرے بھائی خدا سب کا مالک ضرور ہے ۔ وہی ہے جو نظام ہستی چلا رہاہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھا ہوا ہے جیسے ہم سوچتے ہیں کہ زلزلے ،سیلاب، بارشیں یا آسمان سے پتھروں کی بارش سے گویا بہت بڑی تباہی آئے گی۔ ہم سب مر جائیں گے توکائنات کا کتنا بڑا نقصان ہوگا اور پوری کائنات تبا ہ ہو گی ۔ ایسا نہیں ہے یہ تمام چیزیں یہ دنیا اور ہماری زندگی ہمارے لئے بڑی ہیں اور بڑی ہونی بھی چاہیءں لیکن پھر بھی دنیا کا ختم ہونا بہت بڑی بات نہیں ہے ‘‘ میرے دوست کا کہنا تھا کہ ہماری زمین کا خاتمہ کوئی بہت بڑی بات اس لئے نہیں کیوں کہ کائینات میں ایک سیکنڈ کے اندر ہماری زمین جیسی کئی ایک دنیا صفحہ ہستی سے مٹ رہی ہوتی ہیں اور کئی ایک جنم پا رہی ہوتی ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس کرۂ ارض کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ ظاہر ہے اس کی تباہی کاذمہ دار کوئی نہ کوئی تو ہے بفرض محال اگر تباہی کا ذمہ دار خدا ہے تو ہم میں سے کسی کو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اُسی ذات نے اپنی محنت سے یہ دنیا بنائی تھی اور پھر خود ہی گرا دی بس ۔۔۔۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا خدا اتنا ظالم ہے کہ ہمیں آسمانی پتھروں سے مار مار کے لہو لہان کرکے مار ڈالے ؟ ہمارا پختہ عقیدہ یہ ہے کہ خدا تو محبت کا نام ہے وہ تو سراپا پیار ہے ، محبت ہے ، آمن ہے اور آشتی ہے ۔ اگر رب کائنات سراپا محبت ہے تو سائنس ہمیں گمراہ کرنے میں کیوں تلی ہوئی ہے ؟ ۔۔۔ میرے مد مقابل نیم کافر سائنسی انسان نے ماحولیات اور عالمی حدت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کافی کھل کر باتیں کیں ۔ اُن کا خیال تھا کہ تمام تباہی کے پیچھے انسان ہی کا ہاتھ ہے کیوں کہ انسان ہی ہے جو اپنے فائدے کے لئے لئے دھرتی ماں کو کھرج کھرج کر کر نڈھال کیا ہوا ہے ۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ہم نے جس پلیٹ سے کھایا ہے اُس میں چھید بھی کیا ہے( کتنی بری بات ہے ) ۔
بہر حال بہت ساری گفتگو کے بعد آخر میں ( میری نظر میں کافر ) ٹیچر نے ایک پتے کی بات کی، بولے ’ ’ خدا پوری کائنات پر اتنا مہربان ہے کہ جس کی کوئی مثال دنیا میں موجود نہیں تاہم خدا نے انسان کو عقل سے نواز کر اُسے یہ اختیار ودیعت فرمایا ہے کہ وہ اپنی عقل اور فہم و ادراک سے کام لیتے ہوئے آئین فطرت کے عین مطابق زندگی گزارے ۔ قانون فطرت یہ ہے کہ آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھ جل جاتا ہے ۔ اگر آپ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آگ کا کا م جلانا ہے ، اپنی انگلیاں بھڑکتی آگ میں جھونکتے ہو اور جلنے کے بعد کہتے ہو کہ یہ سارا کچھ اوپر والے کے منشأ سے ہوا توگویا آپ نہ صرف خدا کی دی ہوئی عقل جیسی نعمت کی ناقدری کرتے ہو بلکہ آئین فطرت کے اصولوں کے منافی عمل کا مرتکب بھی ہوتے ہو جو کہ بہت بڑی نا شکری کے زمرے میں آتا ہے لہذا مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم سب کچھ جاننے کے باجود اپنے آپ کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا ہے ‘‘
میں اس نوجواں ٹیچر کی، روایتی سوچ کے خول سے باہر نکل کر ،معاملات کی جانچ پڑتال پر ششدر ، حیران اور پریشان رہا لیکن آخر کار تسلیم کرنا پڑا کہ اگر دنیا آج عالمی حدت کی وجہ سے تباہی کے دہانے کھڑی ہے تو اُس کے پیچھے ہمارا ہی ہاتھ ہے ۔ یہ سب مکافات عمل ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔