پرائیویٹ سکولز کے سروں پر لٹکی تلوار

……..– ارشد علی خان
خیبرپختونخوا کابینہ کی جانب سے حال ہی میں منظور کردہ پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی بل 2016ء کے بعد پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن اس حوالے سے احتجاج کا پروگرام ترتیب دے رہی ہے، جس میں نہ صرف صوبے کے مختلف شہروں سمیت صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرے شامل ہیں بلکہ دوسرے مرحلے میں پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن اپنے سکولو ں کی تالہ بندی کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ اس وقت خیبرپختونخوا میں رجسٹرڈ سکولوں کی تعداد تقریبا 27000 ہے جن میں کم و بیش ایک کروڑ بچے زیر تعلیم ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں کی بندش کی وجہ سے کیا ان ایک کروڑ بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہوگا؟ اس وقت جہاں تعلیمی ایمرجنسی اور وزیر تعلیم عاطف خان کی جانب سے بلند بانگ دعوں کے باوجود صوبے میں موجود سرکاری سکولوں کی حالت خراب ہے، وہاں پرائیویٹ سکولز اپنی سی کوشش کرکے بہتر تعلیم دینے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کی تلوار ان کے سوار پر لٹک رہی ہے۔ پرائیویٹ سکول جہاں بچوں کو معیاری تعلیم دے رہے ہیں وہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کر رہے ہیں (تنخواہ کم یا زیادہ پر بات کی جاسکتی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ پرائیویٹ سکول بےروزگار نوجوانوں کو مثبت سرگرمی میں مصروف رکھے ہوئے ہیں). کابینہ اجلاس کے بعد مشیر اطلاعات مشتاق غنی کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ صوبائی وزیر تعلیم ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ، پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اٹھارٹی کے چیئرمین ہوں گے جبکہ ممبران میں پرائیویٹ سکولز کے 4 نمائندے اور والدین کے 2 نمائندے شامل ہوں گے۔ اسی طرح حکومت تین سال کے لیے گورنمنٹ سیکٹر سے بھی 2 ماہرین تعلیم منتخب کرے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرائیویٹ سکولز کے نمائندوں کو پہلے کیوں آن بورڈ نہیں لیا گیا۔ اگر پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے نمائندے آن بورڈ ہوتے تو ایسوسی ایشن احتجاجی مظاہرے اور سکولوں کی بندش کا فیصلہ نہ کرتی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی سکولوں کی درجہ بندی کرے گی جس کے بعد نصاب، فیس اور اساتذہ کی تنخواہوں سمیت دیگر امور کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی طرح کسی استاد کو معطل کرنے کا اختیار بھی پرائیویٹ سکول کے پرنسپل کے پاس نہیں ہوگا بلکہ پرنسپل اپنے استاد کے خلاف اتھارٹی کے پاس شکایت جمع کرائے گا اور اتھارٹی 6 ماہ میں شکایت کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی کہ استاد کو معطل کرے یا برقرار رکھے۔ اگر اتھارٹی کسی استاد کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتی ہے تو ان 6 ماہ کی تنخواہ بھی سکول کو ادا کرنا ہوگی۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر پرنسپل کے پاس اختیار ہی نہیں ہوگا کہ اپنے کسی استاد کو معطل کر سکے تو استاد پرنسپل کی بات کیوں سننے لگا. دوسری بات جو 6 ماہ اتھارٹی فیصلہ کرنے میں لگائے گی، اس دوران بچوں کی پڑھائی کا جو حرج ہوگا، کیا کسی نے اُس بارے میں سوچا ہے کہ اُس گیپ کو کس طرح پورا کیا جائے گا؟ کیا سکول کو اس کے لیے کسی اور استاد کو مقرر کرنا ہوگا؟ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتھارٹی وہ شرائط بھی بنائے گی جن کے مطابق کوئی سکول کھولا اور چلایا جاسکے اسی طرح اتھارٹی کو یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ کسی سکول کی جانب سے فیس میں اضافے کی درخواست رد یا قبول کرے۔ اسی طرح سکولوں کو رجسٹرڈ کرنا، ان کے نصاب کی نگرانی کرنا، ریگولیٹ کرنا، تعلیم کی فراہمی کا طریقہ کار طے کرنا، ہر سکول کی درجہ بندی کر کے فیس سٹرکچر بنانا، تعلیم کی فراہمی کا شیڈول، ہم نصابی سرگرمیوں اور سکولوں میں سرما،گرما کی چھٹیوں کو گورنمنٹ سکولوں کے مطابق یقینی بنانا بھی اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں ہوگا۔ اسی طرح کے دیگر نکات بھی بل میں شامل کیے گئے ہیں۔ کیا حکومت دیگر کاروبار اور صنعتوں کے لیے بھی پرائیویٹ سکولز کی طرز پر ریگولٹری اتھارٹی بنانے کا سوچ رہی ہے؟ کیا کسی فیکٹری کے مالک، جنرل مینجر اور ڈائریکٹر سے یہ اختیار چھینا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ملازم کو نوکری سے برطرف نہیں کرے گا اور اس کا فیصلہ ایک ریگولٹری اتھارٹی 6 ماہ میں کرے گی؟ اسی طرح کیا صوبے میں موجود بیکن ہاوس، سمارٹ سکولز سسٹم اور الائیڈ سکولز سسٹم جیسے سکولز بھی پرائیویٹ سکولز ریگولٹری اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں ہوں گے؟ کیونکہ میری معلومات کے مطابق اے او لیول طرز تعلیم رکھنے والے ان سکولز پر یہ بل لاگو نہیں ہوگا حالانکہ سب سے زیادہ فیس یہی سکول وصول کر رہے ہیں۔ کیا بیکن ہاوس جیسے سکولز کو اس لیے ریگولیٹری اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں نہیں لایا گیا کیونکہ وہ تحریک انصاف کی کسی طاقتور شخصیت کی ملکیت ہیں؟ اگر صورتحال اسی طرح ہے جس طرح بیان کی جا رہی ہے تو یہ صوبے میں موجود 27 ہزار پرائیویٹ سکولوں کے ساتھ ساتھ وہاں زیرتعلیم ایک کروڑ سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔