فاٹا اصلاحات کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے فیصلے پرصوبائی حکومت کے ردعمل کے اہم پہلوؤں کی وضاحت

پشاور(چترال ایکسپریس)وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ 30 ویں آئینی ترمیم اور قبائلی علاقہ جات رواج ایکٹس بلز سے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام اور اس کو قومی دھارے میں لانے کے مقاصد حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس سے خیبرپختونخوا اور فاٹا کے عوام ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے ۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی بد نیتی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجوزہ ترمیمی بل میں آئین کی دفعات1 ، 246 اور 247 کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے جو اس مسئلے کی بنیادی وجہ ہیں ۔ دوسری طرف صوبائی حکومت کے اس مسئلے میں بنیادی سٹیک ہولڈر ہونے کے باوجود وزیراعظم نے ہمارے متعدد مراسلوں کا بھی جواب نہیں دیا ۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ آئین کا آرٹیکل ایک پاکستان کے علاقوں اور اس کی ذیلی د فعہ(سی) فاٹا سے متعلق ہے ۔ آرٹیکل 246 قبائلی علاقوں فاٹا اور پاٹا کی وضاحت کرتا ہے جبکہ آرٹیکل 247 قبائلی علاقوں کی ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے ہے جو خصوصی طور پر ان علاقوں کو پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ دونوں کے دائرہ اختیار سے باہر کر تا ہے۔ان حقائق کا انکشاف انہوں نے اسلام آباد میں مذکورہ مسئلے پر پارلیمانی رہنماؤں کے وفد کو بریف کرتے ہوئے کیا۔ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے فیصلے پرصوبائی حکومت کے ردعمل کے اہم پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کے نام اپنے مراسلے میں واضح کیا ہے کہ اصلاحات کمیٹی نے دونوں علاقوں خیبرپختونخوا اور فاٹا کے انضمام کی دوٹوک تجویز دی تھی ۔مذکورہ سفارشات میں سے کسی ایک سفارش سے بھی انحراف فاٹا کے لوگوں کے اعتماد میں شگاف ڈال دے گا۔ اسلئے ضروری ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد فاٹا کے انضمام وغیرہ کا فیصلہ صوبائی حکومت پر چھوڑ دینا چاہیئے۔ مزید برآں بعض معاملات اور مسائل فوری حل طلب ہیں جن پر عمل درآمد کیلئے پانچ سال کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ مجوزہ ترمیم اگر چہ فاٹا کے عوام کو اپنے اراکین صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا سمبلی میں منتخب کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے مگر مذکورہ ایم پی ایز کا پانچ سال کیلئے فاٹا کے معاملات میں کوئی عملی کردار نہیں ہوگا ۔اس طرح اُن کا بے معنی انتخاب بھی سمجھ سے بالاتر ہے ۔جہاں سے وہ منتخب ہو ں گے اُن علاقوں اور وہاں کے عوام پر ایم پی ایز کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہوگا جو فطرتی طور پر ایک بہت بڑا مسئلہ اور گڑ بڑ پیدا کرے گا۔وزیراعلیٰ نے ٹی ڈی پیز کی واپسی کا عمل 2018 سے پہلے مکمل کرنے کی ضرور ت پر بھی زور دیا ۔فاٹا کیلئے دس سالہ سماجی و معاشی ترقیاتی پلان کی تیاری کیلئے اعلیٰ سطح کی سپیشل کمیٹی کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ چیف سیکرٹری ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور صوبائی حکومت کے محکموں کے سیکرٹریز کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہیئے اور وزیراعلیٰ اور گورنر مشترکہ طور پر اس کی صدارت کریں جبکہ اس وقت صرف گورنر کی صدارت رکھی گئی ہے۔صوبائی حکومت جس کو خطے کی تمام ذمہ داری دی جارہی ہے ، اُسے اس عمل سے باہر نہیں رکھا جا سکتااوریہ پورے خطے کا دیرینہ مطالبہ ہے۔10 سالوں کیلئے قابل تقسیم پول میں سے تین فیصد سالانہ تعین کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبائی حکومت نے اس تجویز کو سپورٹ کیا ہے لیکن کہا ہے کہ این ایف سی کے اراکین تقسیم کے موجودہ فارمولہ کے مطابق تین فیصد کٹوتی absorb کرتے ہیں جبکہ21 ارب روپے پر کیپ کرنے کی بجائے سائز میں بڑھوتری کے مطابق پی ایس ڈی پی کے تعین میں بتدریج اضافہ ہونا چاہیئے ۔صوبائی حکومت نے فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے فاٹا کی تعمیر نو میں کردار کی کمی اور اسکے فاٹا سیکرٹریٹ کے ساتھ ٹرف واراور وہاں بی ایس ۔22 کے افسران کی تعیناتی کا بھی حوالہ دیا اور اس مسئلے پر مزید مشاورت کرنے کا کہا۔ترقیاتی اور انتظامی اُمور کیلئے تمام فاٹاسینٹیز اور ایم این ایز پر مشتمل گورنر ایڈوائزی کونسل کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ فاٹا کے انضمام اور اُس کو قومی دہارے میں لانے کیلئے مجوزہ طریقہ کار بالکل کمزور ہے ۔ اگر ایک بڑے انتظامی یونٹ ، جس میں فاٹا کو ضم کیا جارہا ہے ، کو کسی بھی فیصلہ ساز باڈی سے باہر رکھا جاتا ہے تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔اس کے بجائے تجویز کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت اور اس کے سیکرٹریٹ کو اجازت دی جائے کہ وہ عبوری مرحلے کے دوران گورنر کی معاونت کریں اور یہ مرحلہ جتنا ممکن ہو مختصر ہونا چاہیئے۔وزیراعلیٰ نے فاٹا ڈویلپمنٹ کمیٹی کے منظوری کے اختیارات کو چار سوملین روپے سے بڑھا کر دو ارب روپے اور ایف ڈبلیو پی کیلئے دو سو ملین روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کرنے کی تجویز سے اتفاق کیالیکن کہاکہ انتخابات کے بعد یہ اختیارات پروانشل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے حوالے کردینے چاہئیں۔ صوبائی حکومت نے پارٹی کی بنیاد پر مقامی حکومتوں کے انتخابات ، ایڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دائرہ اختیار کی توسیع اور پرمٹ / راہداری سسٹم کی برآمد اور فاٹا کو درآمد کی تنسیخ سے بھی اتفاق کیا تاہم رواج ریگولیشنز کے نفاذ کے حوالے سے صوبائی حکومت نے کہاکہ یہ پارلیمنٹ کو بائی پاس کئے بغیر اور فاٹا کے عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہونا چاہیئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے فاٹا میں دائرہ اختیارات کے حوالے سے صوبائی حکومت نے تجویز کیا کہ یہ پارلیمنٹ کے رواج ایکٹ کا حصہ ہونا چاہیئے تاکہ اعلیٰ عدلیہ کے دائرہ اختیارات کی رٹ کو بتدریج توسیع دی جا سکے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔