’’یہ سڑکیں ‘‘

…………احسان اللہ لکچرر اردو ادب,گورنمنٹ ڈگری کالج بونی……
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
انسان ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے ۔اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ مختصر سی زندگی اچھے انداز سے گزرے ۔جس سے اس کی زندگی اسان ہو اور وہ اعلی ٰ سے اعلی بے مثال ہو ۔۔انسان کی انفرادی اور اجتماعی طور پر کوشش ہوتی ہے کہ اس کی زندگی پر آسائش ہو ۔بعض اس میں کامیاب ہوتے ہیں ۔۔بعض حائل روکاوٹوں کی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں ۔۔عوام کی زندگی کو پر آسائش بنا نے کے لئے حکومت ہر سال کھربوں روپے دفاع،صحت ،تعلیم اور رفاع عامہ کے کاموں پر خرچ کرتی ہے ۔۔حکومت پاکستان سالانہ اربوں روپے صرف سڑکوں کی تعمیر و مرمت پر خرچ کرتی ہے ۔۔تاکہ عوام کی زندگی میں مذید بہتری آجائے ۔۔اور سہولت ہو ۔۔عوام ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے آجاسکیں ۔۔مگر یہ سڑکیں جتنی زیادہ حکومتی توجہ حاصل کرتی ہیں اس سے زیادہ اپنی کج اداؤں کی بنا پر عوام کی توجہ حاصل کرتی ہیں ۔۔یہ سڑکیں کسی ستم ظریف محبوب کی ذلفوں کی طرح پیچ و خم کھاتی ہوئی چار سو پھیلی ہیں ۔۔محبوب کی ذلفوں کے بارے میں میر نے کہا ہے ۔۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی ذلفوں کے سب اسیر ہوئے
یہ سڑکیں بھی ہر کسی کو اسیر بنا دیتی ہیں ۔۔کوئی شخص بھی ان کی ستم ظریفی سے محفوظ نہیں ۔۔مریض ہو یا ڈاکٹر استاد ہو یا شاگرد ،ملازم پیشہ ہو یا مزدور عرض ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص براہ راست متاثر ہوتا ہے ۔۔البتہ حکومت کے کارندے ، وزراء،رفقاء مبرا ہیں ۔۔جب کہیں پہ ٹریفک جام ہوتا ہے ۔۔تو گاڑی میں سوار شخص کے جسم سے تیل ٹپکنا شروع ہوتا ہے ۔۔اس کو بار بار گھڑی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ۔۔اس وقت بندے کو وقت کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے ۔۔ورنہ عمر گذر جاتی ہے ۔۔کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کیا کرنے آئے تھے کیا کر چلے ۔۔سڑکوں کی ستم گری کی وجہ سے بعض مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اللہ میاں کو پیارے ہو جاتے ہیں ۔۔ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ بندہ جس کو پیارا ہو جائے وہ واپس کسی اور کا نہیں ہو سکتا ۔۔
عوام کا جینا بلکہ چلنا حرام کرنے کے لیئے سڑوں کے بیچ جگہ جگہ کھڈے بنے ہوتے ہیں ۔۔عوام کا سواگت کرت یہ کھڈیبہت پرانے بھی ہوتے ہیں اور نئے نئے بھی ۔۔ حکومت کے فراہم کردہ فنڈ سے ان کی فلنگ یا مرمت کا کام بھی ہو رہا ہے ۔۔مگر یہ ناسور کی طرح بہت جلد نمودار ہو جاتے ہیں ۔۔ہم سب کو تو پتہ ہے ۔کہ ہمارے انجینیرز کتنی مہارت سے کام کو تسلی بخش بنا کر پیش کرتے ہیں ۔تسلی سے ہمیں بخشا ہوا یہ کام چند مہینوں کے اندر اندر اپنی اصلیت بتا دیتا ہے ۔۔مثلا شڑک چوڑی کی مٹی اور ملبہ نیچے گرایا اور اسی ملبے کے اوپر پندرہ سے تیس اونچی دیوار بنائی ۔۔جس طرح پاؤں سے مفلوج بندہ دیر تک کھڑا نہیں ہوسکتا اسی طرح یہ کمزور بنیادوں والہ دیوار بھی بہت جلددھڑام سے گر جاتی ہے ۔۔اگلے سال پھر سے اس کے لیئے فنڈنگ ہو تی ہے ۔
سڑکوں کی تسلی بخش مرمت یا تعمیر کے بعد اگر خدا نخواستہ ایک چھوتا سا پرندہ اس پہ بیٹھ جائے یا بارش ہوئی کہیں سے پتھر گرا تو کھڈ ضرور بن جاتا ہے اور یہ کمپیوٹر وائرس کی پھیل جاتا ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں کھڈ بن جاتے ہیں اور ہما ری زندگیوں کو اجیرن بنا جاتے ہیں ۔۔ گویا ہم زنجیروں میں بندے ہوئے ہیں زنجیروں کا خیال آتے ہی ہمیں ماضی کی یاد ستاتی ہے ۔۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ماضی میں ہم غیروں کے ہاتھوں غلام تھے آج ہم اپنے بھائیوں کے ہاتھوں استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں ۔۔کل وہ اپنے فائیدے کے کام کر رہے تھے آج یہ اپنے فائدے کے کام کر رہے ہیں ۔۔با ت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ہاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار یہ سڑکیں چلتے راہگیروں اور گاڑیون کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں ۔۔بارش ہوئی تو سڑکوں کے بیچ کھڈوں میں پانی بھر جاتا ہے یہ کیچیڑ الود پانی راہگیروں پہ برستا ہے بعض دفعہ ہم سفر کے دوران خواب خرگوش میں ہوتے ہیں ۔۔ہمیں کبھی خواب خرگوش میٰں نہیں ہونا چاہیے ورنہ ہماری سرکیں ہی ہمیں جگائیں گی ۔۔ہمیں کم از کم یہ سوچنا ہو گا کہ سڑکوں کی یہ تباہ حالی موسمی حالات کی وجہ سے ہے یا ہم سب کی وجہ سے ۔۔۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔