رمضان المبارک کی اہمیت و فضیلت

مولانا عبد الحی چترالی
رمضان المبارک بڑی ہی برکتوں، سعادتوں اور نعمتوں والا مہینہ ہے۔ اللہ تعالی نے جو برکتیں اور سعادتیں اس بابرکت مہینے کے ساتھ خاص فرمائی ہیں وہ کسی اور مہینے کے ساتھ خاص نہیں ہیں نیز جو برکتیں اس مقدس مہینے کے اندر کئے جانے والے نیک اعمال کے ساتھ مخصوص ہیں وہ دوسرے مہینوں میں انھی اعمال کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جسمیں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے۔اس مہینے میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا۔یہ مہینہ مسلمان کیلئے خودسازی اور نفس کی تعمیر نو کا مہینہ ہے اور اپنے خالق حقیقی سے مانوس اور قریب ہو نیکے لے سازگار موسم بہار ہے۔
روزہ سال میں ایک مرتبہ اسی لئے فرض کیا گیا کہ معدہ اور مادہ کی شقاوت اور سختی دور ہو، کچھ دن مادیت پرستی میں تخفیف ہو تاکہ اس میں روحانیت اور ایمان کی اتنی مقدار داخل ہوجائے جس سے اس کی زندگی اعتدال پر آجائے، کچھ دیر کے لئے اخلاق الٰہی کا کسی قدر عکس اس میں اُتر سکے۔ اس میں فرشتوں کی نسبت حاصل ہوجائے۔ نفس کا مقابلہ کرسکے اور روح کی پرفضا وسعتوں میں وہ جولانیاں کرسکے ۔ اور رزق کی فراوانی کے باوجود بھوکا پیاسا رہ کر وہ لذت ونشاط حاصل کرسکے جو انواع واقسام کے لذیذ کھانوں سے حاصل نہیں ہوتی اسی کو قرآن کریم ’’تقویٰ ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ‘‘ (البقرۃ)
اس آیت میں روزہ کا مقصد بتایا گیا کہ روزہ سے بھوکا پیاسا رکھنا مراد نہیں بلکہ حیوانی اور نفسانی تقاضوں کو دباکر ملکوتی صفات پیدا کرنا ہے تاکہ اس دل میں خدا کا خوف پیدا ہو اور وہ تقویٰ کی صفت سے متصف ہو۔
امام غزالی ؒ روزے کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’روزہ کا مقصد یہ ہے کہ اخلاق الٰہیہ میں سے ایک خلق کا پرتو اپنے اندر پیدا کرے جسے صمدیت کہتے ہیں اور وہ ایک حد تک فرشتوں کی تقلید کرتے ہوئے خواہشات نفسانی سے دست کش ہوجائے کیوں کہ فرشتے بھی خواہشات نفسانی سے پاک ہیں‘‘ (احیاء العلوم)
رمضان المبارک کے خصوصی اعمال( روزہ، تراویح ، تلاوت قرآن کریم، ذکرِ الٰہی، دعا واستغفار) کا خصوصی اہتمام کیا جائے، اس سراپا نور مہینے میں جس قدر نورانی اعمال کئے جائیں گے، اسی قدر روح میں لطافت، بالیدگی اور قلب میں نورانیت پیدا ہوگی۔ خصوصاً قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کیونکہ اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے، اسی ماہ میں قرآن کریم نازل ہوا۔
اس مہینے میں جھوٹ ،بہتان، غیبت ، حرام خوری اور دیگر تمام آلودگیوں سے پرہیز کا پورا اہتمام کیا جائے، حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور غلط کام کرنے سے پرہیز نہ کرے ، اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ نعوذ باللہ۔ روزے کی حالت میں کان کی ، آنکھوں کی ، پیٹ کی ، اور دیگر اعضاء کی حفاظت لازم ہے۔ الغرض اس مہینے میں گناہوں کا ترک کرنا لازم ہے، اور اگر ذرا سی ہمت سے کام لیا جائے تو ان چند دنوں میں گناہوں کا چھوڑنا بہت آسان ہے۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رمضان المبارک میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو دو باتیں تو ایسی ہیں کہ تم ان کے ذریعہ اپنے رب کو راضی کرو گے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتے پہلی دو باتیں جن کے ذریعہ تم اللہ کو راضی کرو گے وہ یہ ہیں لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دینا اور استغفار کی کثرت اور دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہو سکتے یہ ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو( بیہقی،مسند ابن خزیمہ) اس لئے اس ماہ میں لاالہ الااللہ اور استغفارکی کثرت اور جنت کی طلب اور جہنم سے پناہ مانگنی چاہئے ۔
روزے کے تین مراحل ذکر کئے گئے ہیں اور یہ تینوں مراحل اپنے مخصوص فوائد اور ثمرات کے حامل ہیں۔
سب سے پہلا مرحلہ، روزہ کا یہی عمومی مرحلہ ہے، یعنی کھانے پینے اور دیگرمبطلات روزہ سے پرہیز کرنا۔ اگر ہمارے روزے کا لب لباب انہی مبطلات روزہ سے
برہیز ہے تب بھی اس کی بڑی اہمیت و قیمت اور بڑے فوائد ہیں۔ اسے ہمارا امتحان بھی ہوجاتاہے اور ہمیں سبق بھی ملتاہے ۔
روزے کا دوسرا مرحلہ گناہوں سے دوری اور اجتناب کا ہے ۔ روزے کی وجہ سے انسان،آنکھ، کان ، زبان اور دل کو گناہوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے اس کا درجہ پہلے مرحلے کی بنسبت زیادہ بلند ہوتا ہے
روزے کا تیسرا مرحلہ ایسی ہر چیز سے پرہیز ہے جو انسان کے دل و دماغ کو ذکر الہی سے غافل کردے۔ یہ روزے کا وہ مرحلہ جس کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں روزہ روزہ دار کے دل میں ذکر الہی کی شمع روشن کر دیتا ہے اور اس کا دل معرفت الہی سے منور ہو جاتا ہے۔
ہم میں سے ہر شخص اس کی فکر کرے کہ اس وقت کو غنیمت جانے ،نہ جانے آئندہ یہ ماہ مبارک ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو، اپنے اوقات کو اس طرح منظم کریں کہ زیادہ سے زیادہ وقت اس ماہ مبارک کے مبارک اعمال کے لئے مختص کردیں، جو کام غیر ضروری ہیں ان کو بالکل ترک کردیا جائے ، جن کو مؤخر کیا جاسکتا ہے ان کو ایک ماہ کے لئے مؤخر کردیں، اور جن اُمور کو انجام دینا ضروری ہے ان کی ترتیب بھی اس طرح بنائی جائے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت، ذکرواذکار ، تلاوت قرآن مجید اور دیگر عبادات میں صرف ہو۔
ماہِ مبارک اپنے جلو میں ہزارہا رحمتیں اور برکتیں لے کر ہمیشہ آتا رہا ہے، آئندہ بھی انشاء اللہ آئے گا مگرکون جانتا ہے کہ اگلا رمضان المبارک ہم میں سے کس کو نصیب ہوگا ، اس لئے ہم میں سے ہر شخص کو اس کی قدرکرنی چاہئے اور اس کی پذیرائی اس طرح کرنی چاہئے کہ گویا یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔