پس وپیش……. پہلی جماعت کا کھوار کتاب

 ………………..تحریر: اے ایم خان……….

مقامی زبانوں کے تحفظ کے حوالے سے 2012 ء کو صوبائی اسمبلی میں پاس ہونے والا قانوں پر عمل درآمد کے طور پر تعلیمی سال 2017-18 کیلئے خیبر پختونخوا حکومت نے پانچ مقامی زبانوں کو گورنمنٹ اِسکولوں میں پڑھانے کا کام شروع کیاہے ۔ پہلی جماعت کیلئے ’’کھوار کتاب‘‘ اور ’’کھوار قاعدہ‘‘ خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور نے ’’ٹیسٹ ایڈیشن‘ ‘کے طور پر دوسرے درسی کتابوں کے ساتھ چترال کے پرائمری اسکولوں میں بچوں کو مفت دئیے گئے ہیں۔
’’کھوار کتاب‘‘ کو بچوں کیلئے دلچسپ بنانے کے لئے برف پوش پہاڑ اور ایک سرسبز و شاداب وادی کا کاور فوٹو لگا دی گئی ہے ۔2013 کے نصاب کے مطابق تیار ہونے والے اِس کتا ب کے طباعت کی منظوری نظامت نصاب و تعلیم اساتذہ ، خیبر پختونخوا، لیڈنگ بک پبلشرز پشاور کے ذریعے ، جناب اصغر علی اور محمد مطہر کے زیر نگرانی ہوئی ہے۔
کھوار کتاب کے مولفین محمد سلیم کاملؔ اور اکبر علی عاطفؔ ، ناظم نظامت تعلیم سید بشیر حسین شاہ ، مدیر سید رفاقت علی شاہ کی زیر سرپرستی، اور محمد بلیغ الدین، حسن بصری حسنؔ ، سید رفاقت علی شاہ ، محمد عارف کی نظر ثانی کے بعد شائع کی گئی ہے۔ اِن حضرات کے علاوہ کھوار قاعد ہ کی نظر ثانی میں فخر الدین اخونزادہ اور تالیف میں فرید آحمد رضا کا نام بھی شامل ہے۔
پہلی جماعت کیلئے کھوار کتاب کے شروع میں ختم النبوت ﷺ اور رشوت کی لعنت سے پاک رہنے کا پیغام درج ہے۔ یہ کتاب حمدباری تعالی ، نعت شریف، مشکل الفاظ کے معانی بشمول ایک نظم 22 اسباق پر مشتمل ہے۔
کتاب کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ پہلی جماعت کے بچوں کیلئے ایک بہترین اور خوبصور ت کتاب تیار کی جا چُکی ہے۔اِس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہان ہر چیز کو مقامی (indigenised) بنا دی گئی ہے جس سے بچوں میں پڑھائی میں شوق، سمجھنے میں آسانی، اور اپنے اِردگرد ر ونما ہونے والے حالات اور واقعات سے سبق کے تعلق کو سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پہلی جماعت کے بچون کیلئے یہ کتاب مشکل ہے ، کیونکہ کتاب میں جو بھی کھوار الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ قدیم الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ پڑھنے کیلئے مشکل اور سمجھنے کیلئے آسان ہوتے ہیں۔ سبق کے شروع میں اِس کتاب کے ہر موضوع کے مقاصد ، اور خاص الفاظ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سبق کے آخر میں بولنے ، لکھنے ، اور سمجھنے کیلئے مشق ، اور اُستاد کیلئے ہدایات موجود ہیں کہ وہ کلاس میں سبق کے حوالے سے کیا سرگرمی کرسکتا ہے یا کر سکتی ہے۔
سب سے زیادہ خوشی اِس بات پر ہوئی کہ آج بچوں کے سامنے وہ کتاب موجود ہے جہاں وہ اپنے زبان میں اپنے ، اپنے علاقے کے لوگوں، اشیاء اور موسمی تغیرات وغیرہ کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف بچوں میں اپنے زبان کے ساتھ لگاؤ، فخر، پڑھنے کا شوق، چیزوں کو بہتر سمجھنے کا رجحان پیدا کرتا ہے بلکہ علم اور زندگی میں ربط پیدا کرنے کا موقع بھی فراہم کرتاہے۔ بحثیت اُستاد ’ٹیسٹ ایڈیشن‘ سے فائدہ اُٹھا کر میں اِس کتاب حوالے پر اپنا ریویو (review) پیش کرتا ہوں تاکہ اِدارہ ہذا ہر سبق کے حوالے سے نیچے دئیے گئے پوائنٹس پر آنیوالے سال کیلئے غور کرسکتی ہے۔ کھوار کتاب پر جن پوائنٹس کو نظر ثانی کیلئے اُٹھایا ہے وہ نیچے دئیے گئے ہیں:
کتاب میں سبق ’’نان تتان ادب‘‘ کاجملہ ’پونہ۔۔۔سالوٹانٹے(نتے)سلام کویان‘ میں’ ٹ ‘ کی بجائے ’ت‘ ہونا چاہیے۔ اِس سبق میں جینڈر کے حوالے سے ایک توازن پیدا کرنے اور پہلی جماعت کی ایک بچی میں یہ سمجھ اور احساس کو قوی کرنے کی غرض سے جس طرح شکیل والدین کا ادب کرتا ہے، سکول جاتے اور آتے وقت والدیں کو سلام کرتی ہے، شکیلہ (فرضی نام)کو بھی شامل کیا جاتا تو یہ ضرورت بھی پورا ہو جاتا!۔
سبق ’’چھترارو روایتی چلائے ‘‘ میں جملہ ’۔۔۔’پلامُورو ژراپ‘ کو (پالُم ژراپ) لکھا جائے ، اور ’ ہوستین سوزیرو‘ کی جگہ ’ہوستہ کاردو‘ لکھا جاتا تو نہایت مناسب ہوتا۔ اِس سبق میں زیادہ اُن روایتی پہننے کی چیزوں کا ذکر ہے جو اُون سے بنے ہوتے ہیں، لیکن سبق میں ’پالُم‘ جراب کا ذکر ہے لیکن چترال کے روایتی موٹے جراب (شین ژراپ) کا ذکرموجود نہیں، اگر اِس کا بھی اضافہ کیا جائے تو سبق مزید مفید ہوسکتی ہے۔
سبق ’’مقدس ژاغان احترام‘ ‘ میں ’ہیہ دُنیامختلیف( اُردو لفظ مختلیف کی جگہ ’خور‘ لکھا جاتا) ۔۔۔ ‘ تو جملہ پورا کھوار میں ہوجاتا ۔ اِس سبق میں چترال کے حوالے سے لکھتے وقت کیلاش کمیونٹی کے بارے میں بھی کچھ لکھا جاتا تو علاقے میں تکثیریت کا پہلو اُجاگر ہو جاتا، اور چترال کے حوالے سے زیادہ معلومات کتاب میں موجود ہوسکتے تھے۔
سبق ’’صوبیدار محبوب عالم‘‘ میں جملہ ’ہورو کندوری لووو کھواروت متال غیری شینی ‘ کو اگر اِس طرح ری فریز کیا جاتا ’۔۔۔کھووارا متال بتی شینی یا غیری شینی‘ تو کہوار والا تسلسل پیدا ہو جاتا۔ اور اِس سبق میں لفظ ’سونجات‘ ، ’لوٹھوروئیو اریر‘ کی جگہ ’لوٹھوروئیو کوری اسور‘ ، اور ’ ہوروتے زندہ باد رواتانی‘ کو ’ہوروتے زندہ باد کوراوتانی‘ لکھاجاتا تو جملہ مزید واضح ہو سکتا تھا۔
سبق ’’مایون‘‘ میں لکھا ہے کہ ’مایون چھترارو قومی۔۔۔‘ (قومی پرندہ پاکستان کا دوسرا ہے ، اور کیا ہم چترال کے لوگوں کو ایک قوم بنا سکتے ہیں؟) ۔ اِس سبق میں’ژوڑی پوچیرو ‘ کے ساتھ ’پالوغ گوغینی‘ بھی لکھ جاتا کیونکہ یہ دونوں جملے ایک ساتھ کھوار میں مایوں کے حوالے سے بتائے جاتے ہیں۔ ’مایون زانگ برموغو کانہ ماڑ باتیر ‘ یا (دوئے)، اور ’مایون کویت ژوتی غوٹ بوئے‘ پر بھی سوال اُٹھتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ مایون صرف اخروٹ کے اونچے درخت پر گھونسلا بنا دیتا ہے ، اور اِس بات کا کوئی سائنسی جواب مجھے نہیں ملا کہ یہ پرندہ صرف مقامی میوہ ’کویت ‘ کھانے کے بعدگونگا ہو جاتاہے؟۔
’’ہیمی بوشیک‘‘ یعنی برف باری کے موضوع میں اِس سبق میں ’بو ہیم کی اریر۔۔۔استنار وا شرانار۔۔۔‘ کی وضاحت کیلئے جملہ ’بو ہیم کی اریر ۔۔۔روئے تان استانان افدرینی، وا شارانی ہیمان اف پیچھونی‘ ہوتا تو یہاں اظہار اِس حوالے سے واضح ہوجاتا۔
’’ریڈیو ، ٹی وی، انٹرنیٹ‘‘ کے سبق میں لفظ ’’کھیوالی‘‘ سے ’’کیوالی‘‘ کھوار زبان کا واضح اظہار پیش کرتا ہے۔اِس سبق میں زمانے (s tense) کی پیچیدگی، انٹرنیٹ کو تصویر کے ذریعے پہلی جماعت کے طالب علم کو سمجھانے کا مسلہ بھی درپیش ہوسکتا ہے ۔
سبق ’’چخور گیک‘‘ میں ’کڑیو (کے بعد ’قالپتو‘ لکھا جائے) دروانتے۔۔پوشپ و ا پایو دروانتے زوہچ‘ ، جملہ ’چخور نامین دورا ( کے بعد ’دراری سوزیرو ‘ ) مشین بوئے‘ اور جملہ ’ہے شُترار قالین، پیلیسک، ژراپ وا شُو ساوزینو بوئے‘ میں مزید وضاحت کیلئے ’کٹریو پوشپاری کیہ شُتر کی بویا ن ہتیعار قالین، ژراپ، شُو وا کھپوڑ سوزینی، وا پایو زوہچاری پیلیسک ساوز بوئے‘ لکھا جائے تو جملہ واضح ہو سکتاہے کہ بھیڑکے اُون اور بکری کے بالوں سے کیا کیا تیار کئے جاتے ہیں ۔
سبق ’’ اسپہ سف ای برابر ‘‘ میں جملہ ’شبنم وچے ۔۔۔ ’جموژار اژیلی‘ کھوار میں ’’جموژی اژیلی‘‘ ہوتا ہے، اور اِس میں اُردو لفظ ’رایو ‘ کی جگہ کوئی دوسرا متبادل کھوار لفظ لکھا جاتا تو جملہ نہایت موزون ہوسکتا تھا۔
کتاب میں سبق ’’چھتراری شوقہ‘‘ میں بھیڑ کے اُون (پوشپ) کے حوالے سے اِس سے پہلے سبق (چخور گیک) میں زیادہ لکھا جاتا تو اچھا ہو سکتاتھا ،تاکہ اِس لیسن میں چترالی پٹی (شُو) کے حوالے سے زیادہ لکھا جاسکتا تھا ۔ مثال کے طور پر شوقہ اور چُوغہ میں فرق، رنگ، ڈیزائنز، اور شُو سے بننے والے دوسرے اشیاء جیسے واسکٹ ، دستانہ، چترالی ٹوپی جوکہ چترال کے لوگوں کا شناخت رہا ہے ، کے بارے میں بھی لکھا جاسکتا تھا۔ چترالی ٹوپی (کھپوڑ) نہ صرف صوبے میں بلکہ پورے پاکستان ، اور غیر ملکی سیاحوں میں بھی بہت عام اور مقبول ہے۔
سبق ’’دست دیک‘‘ میں جملہ ’ وا بشاراحوال کونی ‘ میں لفظ ’احوال ‘ اُردو زبان سے لی گئی ہے جسکا متبادل کھوار میں’بشارا وال‘ ہے، بہت عام ہے۔ اِس کے علاوہ اِس سبق میں جملہ ’دست دیک ضروری۔۔۔نو دیتی ’اسونی‘ کی جگہ ’اسیتانی‘ لکھا جاتا تو جملہ ماضی کا اظہار پیش کرتی ہے، ’متے شیلی یا جام لووان ’پتہ ارو‘ کے بجائے ’لوو پراو‘ ، جملہ ’ اوا دی۔۔۔ کے بعد ’ ہموغار آچی‘ کا اضافہ کرکے پھر ’سفوتے سلام کوری ضرور دست دوم‘ کا جملہ لکھا جاتا تو جملہ مزید واضح ہو سکتا تھا۔
سبق ’’ارابہ‘‘ کا ایک جملہ ’کم طاقتو سورا۔۔۔ ’ترین‘ کو مزید واضح کرنے کیلئے ’تارین‘ لکھناچاہیے، ’نسین ربڑو پھوست‘ میں یہ ابہام نکالنا ہوگا کہ ’ربڑ‘ اور ’چمڑا‘ دو الگ چیزین ہیں ، اِسلئیے ربڑ کا چمڑا نہیں ہوسکتا ۔ یہ پڑھنے والوں کے دماغ میں کنفیوژن پیداکرسکتی ہے۔ اِس کے علاوہ اِس سبق میں ٹائر کے رِم (rim ) کے حوالے سے بھی کچھ لکھا جاتا تو سبق کو مزیدسمجھنے میں آسانی ہوتی، اور جملہ ’ ہو پُھو دیتی (ہوا دیتی) ٹونینو بویان‘ میں بھی لسانی پیچیدگی کا اظہار نمایان ہے ،پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جملہ آسان اور سلیس ہوسکے۔
سبق ’’صحت و چے صفائی‘‘ میں خالد کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ اِس سبق میں ’ ہیس روزانہ‘ کی جگہ کھوار لفظ ’ہر انوس‘ لکھا جاتا، ’اِسنارا اُوغ دریران ‘ سے پہلے یا بعد میں ’ہوستان نگیران، موختو اُوغ دویان،وا دونان نگیران‘ کو بھی شامل کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا، کیونکہ روزانہ صفائی کے بارے میں بچوں کو معلومات ہوسکے۔ ’ہمیش کپالتو تیل کوری اخلیران‘ کا متبادل ’۔۔۔تیل دیتی اخلیران‘ استعمال موزوں ہوسکتا ہے، اور ’خالد گہت دیرو ژیبارمان نو ژیبویان‘ کے ساتھ جملہ ’گہت دیرو میووان نگی ژیبوران‘ کو شامل کی جائے تو یہ بچوں میں میوہ جات کو دھوکر کھانے کا پیغام دے دیتی، جوکہ پہلی جماعت کے طالب علم کیلئے نہایت ضروری ہے۔
سبق ’’چھترارو نوغور‘‘ میں ’ژانگ ژانگ‘ کے متبادل الفاظ ’لوٹ لوٹ‘ قدرے عام ہیں، ’۔۔۔موژی دارو گرین شینی‘ کے بعد ’وا بوختان ٹیکتو توق گانی مانی شیر‘ کو بھی لکھنا چاہیے کیونکہ شاہی قلعہ کے اکثر دیوار ایسے ہیں۔ اِس سبق میں لفظ ’دروازہ‘ کی جگہ ’دُواھت ‘ لکھا جاتا تو کھوار لفظ ہی دروازہ کا جگہ لے لیتی۔

اِس کے علاوہ کتا ب میں نظم ’’ملکو معصومان اسپہ‘‘ کے بعد موجود مشکل کھوار الفاظ کے معانی بھی دئیے گئے ہیں جو کہ پڑھنے اور پڑھانے والے کیلئے درس و تدریس کے عمل میں بہترین معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
کتا ب کے آخر میں مولفین کا تعارف، بھائی چارے کے حوالے سے سورہ الحجرات ، آیت 10 کا کھوار ترجمعہ بھی لکھا گیا ہے ، اور پاکستان کا قومی ترانہ کتاب کے بیک کاور ( back cover) میں لکھا گیا ہے، جوکہ ہر درسی کتاب کی طرح اِس کتاب میں بھی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔