داد بیداد ………خودمختاری کی نئی بحث

…………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ…………

28 مئی 2017 کو قوم نے ایٹمی دھماکوں کی یا د مین انیسواں یوم تکبیر منایا ایٹمی دھماکوں کی قابل فخر یا دکو انیسویں بار تازہ کر کے ہم نے پاک فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کو خرا ج تحسین پیش کیا مگر تین باتیں ہمار ی آزادی اور خودمختاری پر اب بھی سوالیہ نشان کی طرح ثبت ہو چکی ہیں 29مئی کے اخبارات میں یوم تکبیر کے ساتھ ساتھ ان باتوں کا تذکرہ بھی شدو مد اور شرمندگی کے اظہار کے ساتھ جا بجا کیا گیا ہے ایک اخباری خبر یہ ہے کہ حکومت پر ڈاکٹر شکیل افریدی کی آزادی کے لئے آمریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے دباؤ ہے ایک اور خبر کے مطابق فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی قومی پالیسی کے خلاف بیرونی قوتوں کی طرف سے پیسہ خرچ کیا جارہا ہے تیسری خبر یہ ہے کہ کلبھوشن یا دیو اور سوات میں پاکستانی فورسز کے خلاف لڑنے والے دہشت گردوں کو رہا کرنے کیلئے بیرونی ممالک پیسہ خرچ کر رہے ہیں یہ لوگ خطر ناک دہشت گر دوں کو آزاد کرانے میں کامیاب ہونے والے ہیں ایک شخص کا ذکر ہے اُس کے پاس خطر ناک رائفل تھی 30راونڈاسکی کمر کے ساتھ بند ھے ہوئے تھے مگر ایک نہتی لڑکی ڈنڈا لیکر اُس شخص کو مار رہی تھی وہ زمین پر گرا ہوا تھا اور باربار مار کھائے جا رہا تھا کسی نے پوچھا بھئی تمہارے پاس اعلیٰ قسم کی رائفل ہے ڈھائی درجن راونڈ ہیں پھر بھی تم مار کھا رہے ہوا اور نہتی لڑکی تمہیں زمین پر گرا کر ما ررہی ہے یہ رائفل کس وقت کام آئے گی؟ اس شخص نے زمین پر گر کر مار کھاتے ہوئے پالیسی بیان دیا ’’ رائفل اُس وقت کیلئے سنبھال رکھی ہے جب میری عزت یا میری جان پر حملہ ہوگا تو یہ میرے کام آئے گا‘‘ گویا لڑکی کے ہاتھوں زمین پر گِر کر پٹ جانا اُ سکی عزت اور جان پر حملہ نہیں تھا ایک شخص چیتے پر سوار تھا مگر دشمن کے پاوں پکڑ کر دشمن کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوئے تھا کسی نے پوچھا بھئی تم نے اتنا بڑا چیتا پال رکھا ہے اس کے باوجود دشمن سے ڈرتے کیوں ہو؟ دشمن کے سامنے گڑ گڑا تے کیوں ہو ؟ امعافی کیوں مانگتے ہو؟ اُس شخص نے کہا بھائی اس مین تعجب اور حیرت کی کیا بات ہے؟ چیتا میر ی حفاظت کیلئے ہے مگر چیتے کو دشمن سے خطرہ ہے اس لئے چیتے کی جان بچانے کیلئے دشمن کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے سوال کرنے والے نے شہباز شریف کے سابق افسر تعلقات عامہ شعیب بن عزیز کے شعر کا مصرعہ دہرایا ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ‘‘پاکستان ایٹمی ملک ہے ہم کو ایٹمی ملک بنے ہوئے 19سال ہوگئے 28مئی 1998ء کے دن ہماری مسلح افواج اور ایٹمی توانائی کمیشن نے یکے بعد دیگرے 5دھماکے کئے بلوچستان میں چاغی کے پہاڑ سرخ ہوگئے مگر 19سال بعد کیا ہوا ؟ آج بلوچستان کے 27میں سے 19اضلاع میں پاکستان کا قومی پرچم لہرانے پر دشمن نے پابندی لگائی ہے پاکستان کا قومی ترانہ گانے پر دشمن کی طرف سے پابندی ہے ایٹمی سائنسدان اور بابائے ایٹم بم ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر سرکاری تقریبات کے دروازے بند ہیں کوئی بھی سیاسی جماعت ان کو صدر پاکستان کے عہدے کے لئے نامزد نہیں کر سکتی 14 اگست اور 23مارچ کی اہم تقریبات میں انکو دعوت نامہ بھیجنا منع ہے دشمن کی طرف سے حکم ملا کہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو بلیک لسٹ کیا جائے اور ہماری حکومت نے ایک سہانی صبح کو دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے یوم تکبر ہماری آزادی اور خود مختاری کی علامت ہے مگر ہمارے پاوں میں 88ارب ڈالر غیرملکی قرضوں کی آہنی بیڑیاں لگی ہوئی ہیں 1999 میں پاکستا ن پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 38ارب ڈالر تھا 2008 تک قرضوں میں 4ارب ڈالر کی کمی ہوئی تھی اور غیر ملکی قرضے 34ارب ڈالر رہ گئے تھے 2008 سے 2013 تک آنے والی خالص جمہوری حکومت نے30ارب ڈالر کے نئے قرضے لئے اور یہ رقم 64ارب ڈالڑ تک پہنچ گئی 2013میں بر سر اقتدار آنے والی حکومت نے 24 ارب ڈالر کے مزید قرضے لئے اس طرح غیر ملکی قرضوں کی مالیت نے تاریخ کی بلندترین سطح 88ارب ڈالر کی حد کو عبور کر لیا مقروض ملک دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتا دشمن کہے ہمیں اپنا جر نیل ہمیں دیدو تو جرنیل دے دیتا ہے دشمن کہے اپنی فوج بھیجدتو فوج بھیج دیتا ہے دشمن کہے اپنا مجرم ہمارے حوالے کرو ،تو مجر م کو حوالے کر دیتا ہے دشمن کہے اپنے سائنسدان کو سزا دو تو مقروض ملک ایسا ہی کرتا ہے ’’یو م تکبر ‘‘اُس کو خو د مختار ی نہیں دیتی یوم تکبیر اُ سکے لئے ہم کی حیثیت رکھتا ہے اور خود مختاری اُ س کے لئے خواب کی حیثیت رکھتی ہے کلبھوشن یا دیو نے پاکستان مین دہشت گردی کا جال بچھایا مسلح افراد پر حملے کئے ،ڈاکٹر شکیل افریدی نے ایبٹ اباد چھاونی پر امریکی حملے میں مدد دی 2006میں گردہ فیل ہونے کی وجہ سے مرے ہوئے اُسامہ کو 2011 میں مارنے کا ڈرامہ رچایا اور لاش دکھانے کی جگہ لاش کو 1200کلومیٹر دور سمندر میں پھینکنے کا بہانہ تراشنے میں دشمن کی مدد کی سوات میں دشمن کے ایجنٹوں نے پاکستان کی سلامتی پر حملے کئے سکولوں کے بچوں کو قتل کیا پولیس اور فوج کے جوانوں کو زندہ پکڑکر ذبح کر کے دشمن سے تمغہ حاصل کیا مگرآج ان سب کو رہا کیا جارہا ہے پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باجود امریکہ اور سعودی عرب کے سامنے بے بس ہے فاٹا کو دشمن نے دہشت گر دی کیلئے استعمال کیا مگر ہماری حکومت فاٹا کے عوام کو شہری حقوق دینے کیلئے دشمن کے اشارے کا انتظار کر رہی ہے اس پر غالب کا شعر صادق آتا ہے ۔
قرض کی پیتے تھے اور کہتے تھے ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی اک دن

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔