چترال یونیورسٹی ۔۔۔خواب سے حقیقت تک کا سفر!

………….تحریر:محمدصابرگولدور،چترال….

تعلیم کا حصول خصوصا جب ہم اعلیٰ تعلیم کی بات کریں تو کسی بھی معاشرے خطے اور علاقے کے لوگوں کی ذہنی نشونما اور سوچ و فکر میں تبدیلی لانے کے لیے ایک ناگزیر شے ہے۔ جہاں زیادہ تر لو گ تعلیم کے حصول کے خواں ہوں اور تعلیم حاصل کرنے کی تگ و د میں لگے ہواوراس کے حصول کے لیے ملک کے دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہو۔ وہاں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کی بنیاد اور موجودگی ان لوگوں کی بنیادی حقوق میں شامل ہے سکول وکالجز کے بنیادی تعلیم کے بعد جب اعلیٰ تعلیم کی جانب دیکھا جائے تو ہمیں یونیورسٹی کانظام نظر آتا ہے۔یونیورسٹی جو کہ تمام متعلقہ علوم سے مزین ایک مکمل جامعہ جو کہ یونیورسٹی کہلانے کے لائق ہے ۔
ضلع چترال میں سرکاری سکولوں کے بعد جب پرائیویٹ سکولوں نے جنم لیا یا پرائیویٹ سکولوں کا رواج عام ہوا تو معیار تعلیم میں کافی تبدیلی دیکھنے کوآئی(اس کے منفی اثرات بھی تعلیمی نظام پر آئے مگر ہم یہاں اس کے مثبت اثرات کی بات کر رہے ہیں)اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پھر پرائیویٹ کا لجزنے چترال کی تعلیمی ضروریات کو کا فی حد تک پورا کیا مگر پھر بھی طالب علموں کومعیاری اورا علیٰ تعلیم کے حصول کے لیے چترال سے باہر جا نا پڑتا تھااوراس کمی کو پوار کرنے کے لئے چترال میں ایک مکمل اور جامع ترین یونیورسٹی کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی ۔
چترالی طالب چاہے وہ نوجوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں آج بھی اکثر و بیشتر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔جو کہ زیادہ تر پشاور شہر اور اسلام آباد میں زیر تعلیم ہیں ۔ چترال سے باہر تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے طالب علموں کو مجبورا چترال سے باہر کوچ کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل سے طالب علموں کا رابطہ ماں باپ، بہن بھائیوں اور گھر سے کٹ جاتا ہے ۔ اور رہائش اور دوسرے اخراجات کا بوجھ بھی والدین پر بڑ ھ جاتا ہے ۔اور اس کے علاوہ ایک طالب علم گھر سے دور ہونے کی وجہ سے نفسیاتی مسائل سے بھی دوچاررہتا ہے۔۔۔
ہم جب کبھی چترال میں یونیو رسٹی کے بارے میں سوچتے تھے یا اس سلسلے میں بات کرتے تھے تو یہ کام مشکل اور ناممکن کام لگتاتھا ۔ مگرہم نے سوچا تک نہیں تھا کہ چترال یونیورسٹی ۔۔۔خواب سے حقیقت تک کا سفرواقعی میں حقیقت بن جائے گاجو خواب ہم بچپن سے دیکھا کرتے تھے وہ خواب اب حقیقت بننے جارہا ہے اور واقعی میں چترال میں ایک مکمل یو نیورسٹی بنے جارہاہے جس کے لئے موضوع جگہ کی انتخاب کا کام جاری ہے ۔ یو نیورسٹی کا لوکیشن نہایت اہمیت رکھتاہے کیونکہ جہاں کہی بھی یونیورسٹی ہوتاہے وہ جگہ شہر کے ساتھ منسلک ہوتاہے یا کم از کم 15/10منٹ کے فاصلے پرواقع ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائیریکٹیر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری صاحب کے مطابق ایک جگہ سین لشٹ میں جبکہ دوسری جگہ سنگور کے مقام پر اور تیسری جگہ ایون میں زیر غورہیں ۔ چترال میں ایک مکمل یونیورسٹی کے قیام سے چترالی قوم بھی ملک کے باقی عوام کے مقابلے میں تعلیم کے سلسلے میں برابر اورسبقت لیے جائیں گے۔چترال یونیورسٹی جس دن مکمل ہوجائیگی تو یہ پورے چترال کے لیے باعث مسرت ہوگی۔ چترال یونیورسٹی کو پشاور یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی اورانٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ہم پلہ بنانے کے لیے ان جامعات سے تجربات ومشاہدات کے تبادلے اور اظہار خیالات کی بنیاد پر کام لیا جاسکتا ہے اس عمل سے چترال یونیورسٹی کا معیار مزید بہتر ہو سکتا ہے۔ لیکن یہاں میں بتاتا چلاو کہ یونیورسٹی کی شاندار عمارت، بلند و بالا بلڈنگ اور اس کے معیار تعلیم اورتعلیمی نصاب میں کوفی فرق ہوتا ہے ۔ نہایت شاندار بلند و بالا بلڈنگ میں اگر میڑٹ کے بغیر اساتذہ کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تو باوجود شاندار اور بلند و بالا بلڈنگ ہونے کے بھی وہ عمارت کار آمدنہیں اور معیاری تعلیم کا حصول نا ممکن ہے جب تک اعلیٰ تعلیم یافتہ اسکالرزپی ایچ ڈیز ،ایم فل ، ریسرچ ڈاکٹرزکی میرٹ کی بیناد پر تعیناتی ہوگی تو صحیح معنوں میںیونیوسٹی بن سکتا ہے ان عوامل کے بغیر وہ عمارت یا بلڈنگ جتنی بھی شاندار کیوں نہ ہو یونیورسٹی کہلانے کے لائق نہیں ۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کے اند ر مختلف فیکلٹی اور دپارٹمٹزجن میں انگریزی زبان وادب، سائنس و ٹیکنالوجی اردو ادب،عربی، چترالی اور چینی زبانوں کے لیے خصوصی ترجیحاتی بنیادوں پرماہر لسانیات کو تعینات کیاجائے تاکہ یونیورسٹی کانظام صحیح طرز اور درست سمت جاسکے ۔ایک یونیورسٹی کی سب سے اہم چیز یہ ہے کہ یونیورسٹی میں تحقیق یعنی ریسرچ کے لیے وہ کونسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔جن پردنیا کے باقی بڑے بڑے یونیورسٹیز میں زوردیا جاتا ہے ۔۔۔
آپ دنیابھر کی اخبار و جرائد اٹھا کر دیکھ لے آپ کو دنیا کے بڑے بڑے یونیورسٹیوں کے حوالے سے تحقیق پر مبنی مواد ملیں گے ۔فلاں یونیورسٹی نے فلاں چیزوں پر تحقیق کیا اور فلاں یونیورسٹی نے فلاں چیزوں پرالغرض باہر کی یونیورسٹیوں کا کام ہی تحقیق اور بس تحقیق ہے۔ایشیاء میں چین اور ترکی کی یونیورسٹیوں میں تحقیق پرکافی کام ہورہا ہے۔اور اب تو بھارتی یونیورسٹیاں بھی اسی راستے پر گامزن ہیں اور بھارتی یونیورسٹیوں کے نام تحقیق کے حوالے سے خبروں اوراخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔مگر پاکستانی جامعات اور یونیورسٹیوں میں تحقیق نام کوئی شے نظر نہیں آتی جوکہ مایوس کن بات ہے۔اس حوالے سے چترال یونیورسٹی کو سامنے رکھا جائے تو یونیورسٹی کو کامیاب اور معیاری تعلیم دے کر اس کو کامیاب بنانا چاہیں تو ہمیں اس میں تحقیق کو بنیاد بنانا ہوگا۔اس کی کامیابی کے لیے ہر طرح کے مشکلات سے نبرد آذما ہونا پڑے گااور چترال یونیورسٹی کو کامیاب بنانے کے لیے ہم سب کو آخری حد تک جانا پڑے گا۔اس کے بغیر چترال یونیورسٹی بھی ملک کے دوسرے یونیورسٹیوں کی طرح محض نام کا یونیورسٹی رہ جائے گا۔پھر وہی ہوگا کہ چترالی طالب علم چترال یونیورسٹی کی بجائے دوسرے شہروں کی جامعات کا رخ کریں گے۔چترال یونیورسٹی کے حوالے سے سوچ بچارکو محدود رکھنے کے بجائے سوچ کو وسیع کرنا ہوگا۔چترال یونیورسٹی میں صرف چترالی طالب علم ہی نہیں پڑھیں گے بلکہ یہ معیار رکھنا ہوگا کہ پشاور ،لاہوراور گلگت سے بھی طالب علم چترال آکر چترال یونیورسٹی میں پڑھیں۔ہمارا وژن یہ ہونا چاہیے کہ چترال یونیورسٹی اتنا کامیاب اور معیاری یونیورسٹی ہو کہ افغانستان اور چین سے بھی طالب علم آکر اس میں پڑ ھنے لگے۔۔۔انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب چترال یو نیورسٹی سے طالب علم علم کی شمعیں ہاتھوں میں لیکر اٹھیں گے اور چترال اور اپنے پیارے ملک پاکستان کے ترقی وخوشحالی کے لیے کام کرتے ہوئے ملک کا نام ساری دنیا میں روشن کریں گے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔