دھڑکنوں کی زبان ….’’جہان تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں ‘‘

………..محمد جاوید حیات ………….

اسلام سے پہلے عالم انسانیت ظلم و بربریت کے کھپ اندھیروں میں ٹاکم ٹوئیاں کھا رہا تھا ۔۔جس کی لاٹھی تھی بھینس بھی اسی کی تھی ۔۔اسلام نے انسانیت کو ایک معیار عطا کیا ۔۔انصاف،عدل اور خد مت کا معیار ۔۔لیڈر شب کا معیار ۔۔جب خلیفہ رسول ﷺ کا ویصال ہوا تو امیر المومنیں حضرت عمرؓ نے بیت المال کے ذ مہ دار سے پوچھا ۔۔کہ خلیفہ رسولؐ کی معمولات کیا تھے ۔۔اس نے کہا کہ آپؓ کام نمٹانے کے بعد کھانا اپنے ساتھ لے کے نکلتے تھے ۔۔حضر ت عمرؓ نے تحقیق کی تو یہ کھانا ایک گھر لے جایا جاتا تھا ۔۔اس گھر میں ایک ضعیف العمر غیر مسلم رہتا تھا ۔۔حضرت عمرؓ نے بھی اسی طرح کھا نا لے کر وہاں تشریف لے گئے ۔۔پہلے اپنا تعارف کرایا کہ وہ عمرؓ ہے مسلمانوں کا خلیفہ ۔۔وہ آدمی ہنس پڑے اور کہا کہ میں آنکھوں سے اندھا ہوں ۔۔اس سے پہلے جو آدمی یہاں پر آتا تھا وہ اپنا تعارف نہیں کراتا تھا ۔۔تو تو احسان جتا تاہے ۔۔۔یہ وہی معیار ہے جس تک پہنچنا کسی کی بس کی بات نہیں اس تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہی کافی ہے ۔۔کیوں کہ حق کی طرف جستجو نصف حق ہے ۔۔۔قوم کاسردار ان کا خادم ہوتا ہے ۔۔اور خادم سراپا خدمت ہوتا ہے ۔۔وہ احسان نہیں جتاتا ۔۔اس کی خدمت کے ثبوت ہوتے ہیں ۔۔اس کے نشانات ہوتے ہیں ۔۔ان کی خوشبو ہوتی ہے ۔۔وہ سراپا درد ہوتے ہیں اور درد کی دوا ہوتے ہیں ۔۔ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے چترال کی سطح پہ آجاتے ہیں تو بدقسمتی سے ہماری لیڈر شب شور غل سے آگے کچھ نہیں ۔۔بس بے ہنگم شور ہے ۔۔اپنے کئے دھرے کی تشہیر ہے ۔۔ایک کھینچاتانی ہے ۔۔لیکن کوئی کیوں یہ احساس نہیں کرتا ہے ۔۔کہ معمولی سے معمولی کام بھی ڈھکی چھپی نہیں ہوتا ۔۔اس کے نشانات ہوتے ہیں ۔۔اس کا ثبوت ہوتا ہے ۔۔ ہماری لیڈر شپ نے جو کچھ کیا ہے یا کر رہے ہیں ان کی خدامات کی یادیں ہیں ۔۔ان کے کام ان کی یاد دلاتے ہیں ۔۔ہم پل پل ان کو یاد کرتے ہیں۔ جگہ جگہ ان کے قدموں کے نشانات ہوتے ہیں ۔۔ہم پگڈنڈیوں پہ چلتے ہوئے ان کو یاد کرتے ہیں ۔۔ہم ٹوٹے پلوں کے اوپرسے گذرتے ہوئے ان کو یاد کرتے ہیں ۔۔ہم شکستہ سڑکوں پر ان کو یاد کرتے ہیں ۔۔ پرانی بلڈنگوں میں ان کی یادیں ہوتی ہیں ۔۔ہم ٹوٹی نہروں کو دیکھتے ہیں تو افسردہ ہو جاتے ہیں ۔۔ہم مسلسل اند ھیروں میں ٹھوکریں کھاتے ہیں تو وہ بڑی حسرت سے ہم کویاد آتے ہیں ۔۔یہ ان کی خدمت کے نشانات ہوتے ہیں ۔۔یہ ان کے قدموں کے نشانات ہوتے ہیں ۔۔یہ سب نشانات چیخ چیخ کر ان کی یاد دلاتے ہیں ۔۔سوچنے کی بات ہے کہ چترال کا بجلی گھر بھٹو کی یادگار ہے ۔۔اس کے بعد کسی لیڈر کو احساس تک نہیں ہوا کہ آبادی زیادہ ہونے سے چترال اندھیروں میں ڈوب جائے گا ۔۔کیا لیڈر شب اس کا نام ہے کہ عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہوں ۔۔چترال میں کب کی یونیورسٹی بننی تھی ۔۔چترال میں اعلیٰ قسم کا ہسپتال بننا چاہئے تھا ۔۔چترال میں بنجر زمینوں کی آبادکاری ہونے چاہئے تھی ۔۔چترال کی سڑکیں پختہ ہونا چاہئے تھیں ۔۔چترال میں ٹیلی فون کا بہترین نظام ہونا چاہئے تھا ۔۔چترال ملک کے دوسرے حصوں کو بجلی دیتا ۔۔چترال میں جنگلات کی حفاظت ہوتی ۔۔قدرتی دولت سے ملامال چترال سے فائدہ اٹھایا جاتا ۔۔اگر یہ سب کچھ ہوتا تو کسی لیڈر کو تختی لٹکانے ،جھنڈا گاڑنے اور نعرہ لگانے کی ضرورت نہ ہوتی ۔۔ان کے قدموں کے نشان ہوتے ۔۔ان کی سنہری یادیں ہوتیں ۔۔ان کے لئے خراج تحسین کے لمحے ہوتے ۔۔۔لیکن ہم جہان ان کا نقش قدم دیکھتے ہیں تو افسردہ ہوجاتے ہیں ۔۔ہماری لیڈر شپ استاذٹرانسفر کرنے ، چپراسی بھرتی کرنے ،ٹھیکہ دلوانے اور سفارش کرنے سے آگے نہیں بڑھتی ۔۔کبھی ہم نے نہیں دیکھا کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کی تعمیر کا سوچیں ۔۔کیا لیڈر شب ایسی ہوتی ہے ۔۔لیڈر شپ وژ ن رکھتی ہے ۔۔کل کا سوچتی ہے ۔۔۔سب کو اپنا کہتی ہے ۔۔مگر ہمارے ہاں اہلیت کی بجائے ’’ہمارا آدمی ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔۔سیاسی مفاد پرستی ، علاقائیت ،اقربا پروری مسلسل پنپ رہی ہے ۔۔اس وجہ سے سستی سیاست فروغ پا رہی ہے ۔۔ایک دوسرے کو قبول کرنے کا تصور ختم ہو رہا ہے ۔۔اور لیڈر شپ کو یہ غلط فہمی ہے کہ عوام یہ سب کچھ محسوس نہیں کرتے ۔۔عوام ان کی یادوں سے وابستہ ہیں ۔۔یہ پل پل عوام کو یاد آتے ہیں ۔۔میں نے جتنے لیڈروں کو خطاب کرتے سنا ہے انھوں نے’’ ہمارا ‘‘ ہی کہا ہے ۔۔ہماری حکومت،ہمارا دور ،ہمارا لیڈر ،ہماری کوشش ،ہم نے کیا ۔۔ آپ کا نمائندہ ۔۔یہ جملے عوامی ہر گز نہیں ہیں ۔۔یہ خود نمائی ،خود سری اور غرور کے جملے ہیں ۔۔جو عوامی نمائندے کو عوام میں رہنے نہیں دیتے۔۔فاصلہ بڑھاتے ہے ۔۔اس وجہ سے عوام مایوس ،محروم مقہور آخر کار معدوم ہو جاتے ہیں ۔۔یہ کھینچا تا نی ان کی یادیں مٹاتی ہے ۔۔یہ انفرادیت ان کو مذید تنہا کر دیتی ہے ۔۔وہ وقتی طور پر شاید کسی کو دوکھا دیں مگر تاریخ کو دوکھہ نہیں دے سکتے ۔۔ہم جہان بھی ان کا نقش قدم دیکھتے ہیں وہاں ویرانے ہی دیکھتے ہیں حالانکہ ہمیں بقول غالب ارم دیکھنا چاہئے تھا ۔۔
جہان تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیابان خیابان ارم دیکھتے ہیں
تماشا کیا محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہ

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔