فکروخیال…زہرہ کی کہانی ۔ ۔ ۔       

 ۔ ۔ ۔ فرہاد خان

زہرہ والدین کی اکلوتی بیٹی ، انتہائی زہیں بچی انگریزی میں  ایسے زہیں اور قابل کو ایور جینئس یا سُپرجینئس کہا جاتا ہے۔ مگراس کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کی پیدائش ایک انتہائی غریب گھرانے میں ہوئی اور والدین ان پڑھ ، سکول کے زمانے سے کالج لیول تک کارکردگی شاندار رہی مگر نفسیاتی طور پر اسے علاج اور مدد کی ضرورت تھی ، زہرہ معاشرے کی اجتماعی غفلت کی بینت چڑھ گئی ،ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کو پاگل کہہ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے اور سو زہرہ کے ساتھ بھی معاملہ یہی تھا،ہماری معاشرتی رکھ رکھاو اور برتاو ہی کچھ ایسا ہے کہ ہم تندرست انسان کونفسیاتی طور پر پاگل بنادیتے ہیں ،ہم کسی مریض کو تسلی دینے کے بجائے اُسے جیتے جی مروادیتے ہیں اور اس لئے میرا ماننا یہ ہے کہ اس معاملے میں ہم سب کے سب زمہ دار ہیں۔ان کے لاچار اور ان پڑھ والدین اس سے زیادہ اور کیا کرسکتے تھے،کئی سالوں سے اس کی نگرانی ہوتی رہی اور بالااخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، ایسی ایور جینئس بچی تو معاشرے کے تاج ہوتے ہیں ،ان کی بہترین نگہداشت اور توجہ سے معاشرے کی نیک نامی ہوتی ہے لیکں افسوس ہم سب زہرہ کو یہ مقام نہ دے سکے ، افسوس صد افسوس یہ کہ ہماری اجتمائی غفلت نے ایک اور ایور جینئس کو ہم سے چھین لی ،  گزشتہ کئی سالوں سے  اسے خاص توجہ اور جلد علاج کی ضرورت تھی جسے غریب والدین تو نہیں کرسکے لیکں کسی کو تو اگے انا تھا، کسی ادارے ، تنظیم اور یا کسی درد دل رکھنے والے افراد کو ، سو وہ ہم سب نہ کرسکے ،ہمارے پاس اوٹ پٹانگ چیزون کے لئے پیسے کی کوئی کمی نہیں ، ہم خرابات کے لئے پیسے دریا کی طرح بہا دیتے ہیں ، ہمارے پاس دکھاوے لے لئے پیسہ بہت ہے ، لیکں جب بات کسی کی فلاح کی ہو ، بات جب کسی ضرورت مند کی مدد کی ہو ، اور بات جب کسی لاچار کی علاج کی ہو تو اس کے لئے ہمارے ہاتھ جیب تک نہیں پہنچ پاتے ، زہرہ کے معاملے میں بھی ہم بہت پیچھے رہے،اسے نفسیاتی طور پر رہنمائی اور علاج کی اشد ضرورت تھی، اسے فوری فور پر ایسے علاج کی ضرورت تھی کہ جس سے اس کی جان بچائی جاسکے ، کہان ہیں وہ ادارے جو سروے کے نام پر در بہ در گھومتے رہتے ہیں لیکں انہیں اب تک زہرہ اور اس جیسی ہزارون زہرا اب تک نظر نہیں ائیں ، اس جیسے کئی زہرائیں اب تک مناسب رہنمائی اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے اپنی قیمتی زندگیاں کھو بیٹھی اور ہزاروں علاج کی راہ تگ رہی ہیں لیکں ہماری حکومت اور متعلقہ ادارے صرف کاغذی خانہ پری کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ زہرہ بھی اسی قسم کی معاشرتی بے حسی پر نوحہ کنان انتظار کرتی رہی لیکں نے سُود ، اُسے اپنے اپ کو دریا کے بے رحم موجون کے حوالے کرنے کے سوا اور کچھ چارہ ہی نہ تھا،اُسےاخر اس بیماری سے چھٹکارہ تو پانا ہی تھا،جب ہر طرف سے مدد کی توقع نہ رہی ، جب ہر طرح سے اسے کوئی رہنمائی نہ ملی تو اخر کیا کرتی۔  جب بھی یہ بیماری اس پر حملہ اور ہو جاتی تو زہرہ بلکل حوش کھو بیٹھتی ، اور پھر وہ سب کچھ کرتی ، کوئی چیز ہاتھ لگ جاتی تو اُسے توڑ دیتی ،کہیں بھاگ نکلتی ، اور بے چارے والدین اس کے پیچھے نکل جاتے ، جب ہوش واپس اتی تو کہتی کہ میں نے کیا کیا ، وہ کہتی کہ لوگ کہتے ہیں میں نے یہ کیا ، مجھے سنتے ہوئے  شرم اتی ہے کہ اخر میں نے ایسا کیوں کیا ، ،لیکن کیا کروں ، ایسا کرتے ہوئے مجھے پتہ ہی نہیں چلتا ، ، ایک دفعہ اسے پشاور لے جایا گیا ،کچھ دنوں کی علاج سے تقریبا ٹھیک لگ رہی تھی لیکں ، پھر رفتہ رفتہ علاج میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماری پھر سے زور پکڑنے لگی ،بیماری اور شدید زہنی پریشانی کے باوجود اس بچی نے پڑھائی جاری رکھی میڑک فرسٹ ڈویژن نمبرون کی ساتھ پاس کی ،میڑک کے بعد کالج گئی ، فرسٹ ائیر کے امتحان میں اپنے کالج کے تمام طلباو طالبات سے بازی لے گئی ،سب سے زیادہ نمبرز لی اور اس سال سیکنڈ ائیر کے امتحانی پرجے دیئے تھے اور اسے توقع تھی کہ اس سال بھی وہ سب سے زیادہ نمبر لیں گی۔ان دنوں امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد گھر پر تھی اکثر یہ جان لیوا بیماری حملہ اور ہوجاتی، ماں عرصہ دراز سے رات دن اس کے ساتھ رہتی کیونکہ اسے اکیلے چھوڑنا ہمیشہ خطرے کی علامت تھی ،مرنے سے ایک دن پہلے بھی اسے ایسا ہی کرتے ہوئے دریا سے زندہ نکال لیا گیا تھا لیکن دوسرے دن اُس نے پھر سے ایسا ہی کیا اورنہ بچ سکی، اورغریب والدین کو روتا چھوڑ کر چلی گئی۔اور یوں ایک اور بنت ِحوا مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے رارفانی چھوڑ گئی ، زہرہ تو چلی گئی لیکں جاتے جاتے وہ ہم سب کو جھنجھوڑ کر گئی کہ اب بھی اُس جیسی ہزارون زہرائیں راہ تک رہی ہیں ، انہیں مناسب علاج اور رہنمائی کی اشد ضروت ہے ، انہیں کبھی نمبر کم انے پر ، پرچے میں فیل ہونے پر اور مختلف حوالون سے کوسنے کی بجائے ایمرجنسی بنیادون پر مناسب رہنمائی،اگاہی اور تربیت کی ضرورت ہے ، ہزارون ایسے ہیں جن کے لئے سکولوں میں اساتذہ کی رہنمائی اور مجموئی طور پر سماجی و معاشرتی بہبود کے ادارون کے زریعے سے اگاہی و رہنمائی کی ضرورت ہے اور وہ بھی ایمرجنسی بنیادون پر ، جیسا کہ اوپر لکھا جا چُکا ، ادارون کے پاس پیسے کی کمی نہیں سالانہ اربون روپے مختلف کاموں پر پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں لیکن اس جیسے سنگین نوعیت کے کیسز پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ، سرکار و متعلقہ این ۔جی۔اوز۔کو چاہیئے کہ اس جیسے تیزی سے سرائیت کرنے والی معاشرتی وبا کو مذید پھلینے سے روکا جائے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔