۔ فکروخیال …ایک اور المیہ

…..۔ فرہاد خان

چیو پُل کے قریب ہونے والا حادثہ کوئی نیا واقعہ نہیں اس سے پہلے کئی بار اس پُل کے آس پاس المناک حادثات رونما ہوچکے، پچھلے سال گرم چشمہ مُردان سے چترال انے والا مسافر گاڑی بھی اسی جگہ حادثے کا شکار ہوگیا تھا جس میں کئی قیمتی انسانی جانون کا ضیاع ہوا اور اس المناک حادثے میں دو نوجوانون کی لاشین اب تک نہ مل سکیں ، پچھلے سال کے واقعے کے بعد ایک دو دن بیان بازیان ہوتی رہیں اور پھر اس دلخراش واقعے کو یکسر بُھلا دیا گیا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اُس واقعے کے بعد اس روڈ کے لئے حفاظتی انتظامات کا بندوبست کیا جاتا ، دریا کے کنارے والے سائیڈ پر اونچی دیوار تعمیر کی جاتی یا کم از کم حفاظتی جنگلے لگائے جاتے تو کل ہونے والا واقعہ شاید نہ ہوتا ، گرم چشمہ چترال روڈ پر ایک اندازے کے مطابق کروڑون روپے خرچ کرنے کے دعوے کئے جاچُکے لیکں روڈ کی خستہ حالی سر چڑھ کر بول رہا ہے ، یہاں ہر سال کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا بینر، سائن بورڈ اور اشتھار ضرور لگتا ہے لیکں 10 فیصد سے زیادہ عملی کام ہوتا ہی نہیں ، ٹھیکدار اور انجینئرز کی ملی بھگت سے ہر سال اس روڈ کے مرمت کے نام پر کروڑون روپے ہڑپ کر لئے جاتے ہیں اور سیاسی نمائندہ گان صرف سائن بورڈ لگا کر افتتاحی رسم کے بعد رفو چکرہوجاتے ہیں،لمہہ فکریہ یہ ہے کہ ان کروڑون روپوں میں سے چند لاکھ روپے ہی چیو پل کے اس پاس روڈ پر لگائے جاتے تو کم از کم یہ حادثات وقوع پذیر نہ ہوتے ، صوبائی حکومت ، اور ضلعی انتظامیہ ایمرجنسی بنیاد پر اگر اس مسلے پر توجہ دیتا تو کئی انسانی جانون کا یون بے دریغ ضیاع نہ ہوتا، یہان المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر نئے حادثے کے بعد ایک دو دن کے لئے متحرک ہوجاتے ہیں اور پھر اسے بھول کر کسی نئے حادثے کے منتظر رہتے ہیں ، ارکاری وادی کے مسائل پرمیں نے پچھلے سال ایک مفصل ارٹیکل بھی لکھا تھا جس میں ان تمام مسائل کو ایک ایک کرکے اجاگر کیا گیا تھا لیکں اس پر کسی نے کان نہ دھری اور وہ ادنی سی کوشش دھری کی دھری رہ گئی ، ارکاری والوں کے سفر کا معمول یہ ہے کہ یہ لوگ رات دو بجے گھپ اندھیرے میں چترال کے لئے نکل جاتے ہیں چونکہ سفر کا دورانیہ کافی لمبا ہوتا ہے اس لئے رات کی نیند ادھوری رہ جاتی ہے ، ایک طرف روڈ کی خستہ حالی سے تھکان کا دور دورہ تو صبح کے وقت نیند غالب اجاتی ہے اور اس وجہ سے اکثر ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں،اس جیسے حالات میں سفر کرنا انتہائی خطرناک ہوتا ہے لیکں حالات کی مجبوری ہے کیا کیا جائے ، سڑکون کی ناگفتہ بہہ صورتحال ایک طرف تو دوسری طرف ہمارے نمائندے چترال سے گرم چشمہ ہائی وے بنانے کا دعوی کرتے کرتے نہیں تھکتے، روز نئے سیاسی بیانات اتے ہیں اب تو یہان سیاسی کھیل تماشے اتنے زیادہ ہوچکے کہ ہر نئے دن اربون روپے کے پراجیکٹ اتے ہیں اور وہ بھی صرف سوشل میڈیا پراور جلسون میں بیان بازی کی حد تک ، عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہورہا، ہر سیاسی جماعت کا نمائندہ ، لیڈر، اور کارکن اپنے اپنے مفاد کے چکر میں ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے اور پگڑیان اُچھالنے میں مصروف ہیں،اعلان شدہ پراجیکٹ کو ہتھیا لینے اور اپنے اپنے کارکنان کو نوازنے کی کوشش کی جارہی ہے ،عوامی اجتماعی مفاد کا کون سوچتا ہے ، انفرادی مفادات کی جنگ جاری ہے اور انفرادی مفادات کی جنگ میں ہمارے لیڈران اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے لڑ رہے ہیں ان تمام انفرادی نفسانفسی کے عالم میں ان جیسے سانحات پر بس ایک دو دن کی سیاسی بیان بازی ہوگی اور پھر اس سانحے کو بھی پست پشت ڈال کر مفادات کی جنگ شروغ ہوجائے گی، فنڈز کی ہیرا پھیری کا آغاز ہوگا، سائن بورڈ پر لاکھون روپے کے فنڈز لکھے جائیں گے اور عملی طور پر وہی بے بسی، مسائل کی انبار اور لیڈران کی وہی بے حسی،  بس اور کیا کہا جائے ،

جس دور میں ُلٹ جائے فقیرون کی کمائی ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ اُس دور کے سُلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔