دوسری حقیقت

مبشر علی سنگال

ھم اگر چترال کی گذشتہ ۱۱۷ سالہ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لے تو ہمیں تین ایسے کام نظر آئین گے جنہوں نے چترال اور چترالی عوام کی ذندگیاں بدل ڈالی۔پہلا کام چترال میں ” ماتحتی ” نظام کا خاتمہ تھا، دوسرا کام ۱۹۷۵ میں لواری ٹاپ پر سْررنگ بنانے کے منصوبے کا آغاز تھا، تیسرا کام ۲۰ جولائی ۲۰۱۷ کو چترال میں ایک الگ یونیورسٹی کا قیام تھا۔ پہلے کام کا سہرا قاعدِعوام ذولفقار علی بٹھو کو جاتا ہے جس نے چترال میں مکمل اور پورے پاکستان میں جزوی طور پر “ماتحتی ” نظام کا خاتمہ کر کے ایک بڑی اور خاص طبقے کے عوام پر بہت بڑا احسان کردیا ، اُس کے بدولت بہت سے لوگون کو ذاتی جائدادین ملی اور ملکی ذرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ عمران خان نے چترال میں یونیورسٹی کا قیام رکھ کے چترال کے تاریخ میں تیسرا بڑا کام کردیا اور جہان تک لواری ٹنل کی بات ہے اسکا “کریڈٹ ” تین لوگون کو جاتا ہے ، ذولفقار علی بٹھو، جنرل سید پرویز مشرف اور میاں محمد نواز شریف۔ان تین لوگوں کی کوشیشوں سے بالا آخر یہ دیرانہ منصوبہ کامیاب ہو گیا۔اس بات کو آگے لیجانے سے پہلے ہم سرِدست لواری ٹاپ کی طرح جاتے ہیں۔لواری ٹاپ چترال کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے والا بلندی کے حساب سے او ر لمبائی کے حساب سے بھی سب سے کم بلندترین چوٹی ہے ، اسکی بلندی۱۰۲۳۰ فٹ ہے۔ دوسرے آپشن میں گلگت سے ہوتا ہوا شندور ٹاپ ہے جس کی بلندی ۱۲۲۰۰ فٹ اور لمبائی بھی لواری ٹاپ سے بہت زیادہ ہے۔ چونکہ اس بات کو مدِ نظر رکتھے ہوئے جب انگریزون نے برِصغیر میں سڑکوں کا جھال بچھایا تھا تو اُنہوں نے بذریعہ سڑک لواری ٹاپ کو چترال کے لیے منتخب کیاتھا اور کچھ عرصے بعد جب انگریزون کو چتر ال کی محلِ وقوع کا اہمیت کا اندازہ ہوا تو اُنہوں نے ۱۸۹۰ میں لواری ٹاپ پر سُرنگ بنانے کا عندیہ بھی دیاتھا جس کو سلطنتِ برطانیہ نے یہ کہہ کر ٹھکرادیا تھا کہ لواری ٹاپ کی بندش سے ہمیں سال میں چھ مہینہ شمال کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا کیونکہ دشمن اس کو سر نہیں کرسکتا۔ پھر پاکستان بننے کے بعد لواری ٹاپ پر نظرِ ثانی کی گئی جو صرف نظرِ ثانی ہی ثابت ہوئی۔ پھر ۱۹۷۲- ۱۹۷۳ کے درمیان میں چترال کی طرف پہلی بار رکنِ قومی اسمبلی جناب اتالیق جعفر علی شاہ صاحب نے لواری ٹاپ میں سُرنگ بنانے کی تجویز اُس وقت کے وزیر اعظم پاکستان کے سامنے رکھ دی جو ذولفقار علی بٹھو نے قبول فرمائی۔ اب آپ کچھ پل ٹھرے اور سوچے، کیا ہمیں لواری ٹنل کا” کریڈت” اتالیق جعفر علی شاہ صاحب کو بھی نہیں دینا چاہیے ؟ بلکل دینا چاہیے کیونکہ ا گر وہ یہ منصوبہ ذولفقار علی بٹھو کے دور میں پیش نہ کرتے؟ لہذا چترال کے حکمرانون کو چاہیے کہ وہ ایک وفد لیکر اتالیق جعفر علی شاہ صاحب کے گھر جائے اور چترالی عوام کی طرف سے ہمارے محسن کا شکریہ اد ا کریں اور پھر انکی قبر پر جائے پھول چھڑائے، سلوٹ کرے اور فاتحہ خوانی کریں۔ اگر اتنی بھی عزت اُن کو یا اُنکے خاندان والوں نہیں دی گئی تو یہ اُنکے ساتھ ناانصافی ہوگی۔(یہ فریضہ عوام بھی سر انجام دے سکتے ہے) پھر ۱۹۵۷ کو ذولفقار علی بٹھو صاحب نے لواری ٹنل کا منصو بہ شروغ کردیا جو اس وقت ۶۰ کروڑ روپے میں مکمل ہونا تھا۔لیکن ایک سال بعدسیاسی تبدیلی کی وجہ یہ منصوبہ مکمل طور پہ رُک گیا اور پھر ۲۰۰۵ میں جنرل پرویزمشرف صاحب نے لواری ٹنل پر کام دوبارہ شروغ کردیا جو ۲۰۰۸ میں مکمل ھونا تھا مگر پھر مقررہ وقت ۲۰۰۹ رکھا گیا پھر دوبارہ سیاست در میان میں اگیا اور لواری ٹنل کا منصوبہ بھی دوسرے منصوبوں کی تقریباً زمین بوس ہو گیا۔ آپ کمال ملاحظ کیجیے، پیپلز پارٹی کے بانی نے یہ منصوبہ شروغ کردیا تھا اس کے بعد پیپلز پارٹی تین دفعہ برسرِاقتیدار آئیے لیکن اپنے بانی کے دوسرے منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی ان کو متاثر نہ کر سکی، محترمہ بے نظیر بٹھو صاحبہ نے البتہ اپنی دوسری دورِ حکومت ۱۹۹۶ میں یہ اعلان کیا تھا کہ لواری ٹاپ کے مکمل ہونے تک سردیوں میں دیر سے ہیلی کا پٹر مسافروں کو چترال لے کر جائے گی لیکن کچھ عرصے بعد اُس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور زرداری صاحب کے پانچ سالہ دور حکومت میں صرف اڑھائی عرب روپے اِس پر خرچ کئے گئے جو ڈوبتے ھوئے کو تنکے کے ذریعے بچانے کے مانند تھا۔ پھر پی۔ایم ایل۔این نے لواری ٹاپ پر دوبارہ کام شروغ کردیا اور ۲۷ عرب روپے کی لاگت سے بلاآخر یہ منصوبہ ۲۰ جولائی ۲۰۱۷ کو پائیہ تکمیل کو پہنچا۔ اور اب کے بعد سے مقامی لیڈروں میں جنا ب اتالیق جعفر علی شاہ اور ہمارے حکمرانوں میں جناب ذلفقار علی بٹھو، جناب پرویز مشرف اور جناب میاں نواز شریف کا نام چترال کی تاریخ میں سہنرے الفاظ میں یاد کیا جائیگا۔ یہ حقیقت اب میاں صاحب کے مخالفین کو بھی مان لینی پڑی گی کہ میاں صاحب کی کوشیشوں سے آخر کر یہ دیرانہ منصوبہ مکمل ہو گیا۔

اس کے سا تھ ہم عوام کو بھی ایک حقیقت تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمیں شمار کے دو چند ہی ایسے حکمران میسر آئیں ہے جو کامیابی کی سیھڑی ثابت ہوئے ہیں اور باقی سارے اپنے آپ کبھی بطور سیھڑی پیش نہیں کئے ہے ہاں البتہ ایک بنے بنائے سیھڑی میں گر دو تیں دانت لگانے ہو تو یہ پیش پیش اتے ہیں۔ چلے ہم بات کو مختصر کرتے ہے، لواری ٹنل کا منصوبہ ۱۹۷۵ کو شروغ ہوا تھا اور اس پر دوبارہ کام ۲۰۰۵ کو شر وغ ہوا، ۱۹۷۵ اور ۲۰۰۵ کے درمیاں کئی حکمران گزر گئے لیکن ان کو لواری ٹنل کا یہ منصوبہ ایک انکھ نہیں بھایا اور نہ انہیں چترالی عوام پر ترس ایا اور اُن حکمرانون میں میاں نواز شریف صاحب بھی شامل ہیں۔میاں صاحب اس دوران دو دفعہ حکمران بنے لیکن لواری ٹنل پر ذرا برابر توجہ نہیں دیا کیونکہ اُس وقت منصوبے پر ۷۸ فیصد(پہلے بنائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق) کام نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی “بڑا منصوبہ ” چل رہا تھا۔ اور یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ بغیر کسی موسمی مجبوری کے اتنے بڑے منصوبے کو مکمل طور پر مکمل ہونے سے پہلے ہی افتتاح کیا گیا ، ایمرجنسی کے اقدامات مکمل نہیں ہوئے ہے اور ا گر خدا نخواستہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو جواب کون دے گا؟ لہذا پی ایم ایل این کی حکومت کو چاہیے کہ اکتوبر کے مقررہ وقت تک سارے کام مکمل کروائے ۔لیکن پھر بھی ان سارے گِلے او ر حقائق کے باوجود چترالی عوام میاں نواز شریف صاحب کا یہ احسان کبھی نہیں بھولے گی۔ اگر میاں نواز شریف صاحب خود کو چترالی عوام کی نظروں میں ذلفقار علی بٹھو صاحب اور پرویز مشرف صاحب کی صف میں دیکھنا چاہتے ہے تو اُنہیں “کُرسی رہے یا نہ رہے” والی لسٹ میں چترال کے لیے ایک اور الگ یونیورسٹی کا قیام اور گیس کا منصوبہ جو آجکل ذیرغور ہے اُسے پائیہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا اور ساتھ اگر چکیدارہ تا چترال روڈکو سی پیک کے “do first” والی لسٹ میں ڈال دے تو میاں صاحب کا مقام چترالی عوام کے نظروں میں سب سے اُنچا ہو گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔