بلاول کا دورہ چترال، ایک جائزہ

……….کریم اللہ…….
چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری صوبہ خیبر پختونخواہ میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز صوبے کے سب سے پسماندہ شمالی پہاڑی ضلع چترال سے پانچ اگست دوہزار پندرہ کو کیا۔ اسی روز چترال پولو گراونڈ میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ اگلے روز گورنر کاٹیج چترال میں پورے دن چترال کے جیالوں کے وفود سے ملاقات کرتے اور علاقے کے مسائل پر بات کرتے ہوئے گزارے۔ دیکھا جائے تو انتہائی سخت گرمی میں چترال پولو گراونڈ کی تپتی دھوپ میں صبح گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک جیالوں کا پارٹی چیرمین کے انتظار میں بیٹھنا اس امر کا غماز ہے کہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں اب بھی پاکستان پیپلز پارٹی ایک مستحکم عوامی قوت کے طورپر موجود ہے۔ پولو گراونڈ چترال میں عوام سے خطاب کے دوران بلاول بھٹو نے نہ صرف ماضی میں چترال کے لئے پیپلز پارٹی کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ یہ بھی کہا کہ چترال کو میرے نانا ذوالفقار علی بھٹو، نانی محترمہ نصرت بھٹو، میرے والدہ شہید بی بی اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ جبکہ لاڑکانہ کے بعد چترال کو میں اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہوں۔ اس کے علاوہ میاں نواز شریف اور عمران خان پر بھی تنقید کے نشتر برسائے۔ ساتھ ہی اگلے انتخابات میں ایک مکمل عوامی منشور کے ساتھ میدان میں اترنے کا بھی اعلان کیا۔ بلاول کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ترقی پسندوں کی جماعت ہے، جس نے ہمیشہ عوامی سیاست کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ پانچ اگست کو جہاں بلاول اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی و و صوبائی و وفاقی قیادت جیالوں کا خون گرمانے کی کوشش کرتے رہے۔ وہیں اگلے روز گورنر کاٹیج میں جیالوں کے وفود سے ملاقات کے دوران علاقے کے مسائل کو مکمل طورپر سمجھنے، پارٹی تنظیم سازی اور اگلے انتخابات کے لئے مکمل تیاریوں کے ساتھ میدان میں اترنے کی تدابیر بھی ہوتی رہیں۔ پولوگراونڈ کے اپنی تقریر میں پی پی پی چترال کے ضلعی صدر اور ایم پی اے سلیم خان نے چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے، زرعی قرضوں کی معافی اور ریشن پاور ہاوس کی بحالی کے لئے پارٹی چیرمین اورقومی اسمبلی میں قاید حزب اختلاف خورشید شاہ سے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ اگلے روز جب سب ڈویژن مستوج کے جیالوں کی وفد گورنر کاٹیج میں بلاول سے ملاقات کی تو اس ملاقات میں بھی بعض جیالوں نے زرعی قرضوں کی معافی کے لئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا جس پر چیرمین پی پی پی نے قومی اسمبلی میں قاید حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو اس سلسلے میں اسمبلی فلور میں آواز اٹھانے کی ہدایت کی۔ ان ملاقاتوں میں سب سے اہم پی ایس ایف اور پی وائی او کے وفود کی ملاقات تھیں جس میں پی ایس ایف اور پی وائی او کی جانب سے پارٹی امور پر روشنی ڈالنے کے علاوہ چترال میں ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس و ٹیکنالوجی (زیبسٹ) کے کیمپس قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا اس کے جواب میں بلاول بھٹو نے پارٹی کے سینیر قیادت سے مشاورت کرکے اس ادارے کے قیام کا اعلان کیا۔ جبکہ چترال کے ایم پی ایز کو اس سلسلے میں خصوصی ہدایت دی گئی کہ وہ خیبر پختونخواہ صوبائی حکومت سے اس حوالے سے اجازت لے لیں۔ اس موقع پر چیرمین پی پی پی نے یہاں تک اعلان کیا کہ چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کے پلان کو آئیندہ کے انتخابی منشور میں بھی شامل کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مستقبل قریب میں چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرکے ضلع مستوج کی بحالی کے عوام کا دیرینہ مطالبہ شرمندہ تغبیر ہونے کے قومی امکان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی عندیہ دیا جارہا ہے کہ شاید اگلے انتخابات میں بلاول خود چترال سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے خواہش مند ہے ایسی صورت میں ہندوکش کا یہ دورافتادہ حلقہ انتخاب بین الاقوامی حیثیت اختیار کرسکتی ہے۔ جس کے چترالی سیاست پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔