داد بیدا د….کالا بابو اور نوجوان انجینئر

………..ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ ……

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لوجی پشاور یا جی آئی کے انسٹیٹوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس ہو کر آنے والے نامورانجینئروں نے 2015اور2016میں خیبر پختونخوا کے سرکاری محکموں میں نوکری کے لئے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پا س کیا مگر سال یا ڈیڑھ سال بعد وہ سب کا م چھوڑ کر جانے کے لئے پر تول رہے ہیں کوئی آسٹریلیا کا سکالر شپ لے رہا ہے کوئی این جی اوز کے محبت میں دیوانہ ہو رہاہے کوئی مڈل ایسٹ اورخلیجی ممالک کا رخ کر رہا ہے کوئی نجی شعبے کی طرف جارہا ہے کوئی فل برایٹ سکالر شپ کے لئے درخواست دے چکا ہے جانے والوں کے ساتھ طویل مکالمہ ہو تا ہے تو سنسنی خیز باتیں معلوم ہوتی ہیں اور چیرمین سینٹ سید خور شید شاہ کے قول زرین پر یقین آجا تاہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ملک پر کالا سانپ مسلط ہو ا ہے گذشتہ 70سالوں سے یہ کا لا ناگ ملک کے ساتھ لپٹا ہو اہے ہماری جان نہیں چھوڑ رہا یہ کا لا سانپ وہ سسٹم ہے جس پر انگریزوں کے جانے کے بعد کا لا بابو مسلط ہو گیا قومی تعمیر کے 10محکموں میں انجینئر کا م کر تے ہیں ایک ایک کروڑ روپے کی 20سکیموں پر کام کرنے والے انجینئر کی تنخواہ 30ہزار روپے ہے اس کے پاس سائیٹ پر جانے کی گاڑی نہیں ٹریو ل الاونس کا فنڈ نہیں وہ ٹھیکہ دار کی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے شرم اورندامت محسوس کر تا ہے لوکل گورنمنٹ کے انجینئر کے پاس ایک ضلع کی 200ویلیج کونسلوں ،40نیبرھڈ کونسلوں کی سکیمیں ہیں ایم این اے اورایم پی ایز کا فنڈہے ضلع ناظم کا فنڈ ہے کم سے کم 100مربع کلو میڑکا سفر ہے ضلع چترال میں 14850مربع کلو میٹر کا علاقہ دیکھنا ہے انجینئر کے اوقات کار وزانہ 18گھنٹے بنتے ہیں پھر پبلک ڈیلنگ ہے عوام کے ساتھ مغز کھپائی ہے سیاسی لوگوں کے ساتھ کھنچا تانی ہے این جی او زمیں اس قدر کا م ہو تو دو لاکھ روپے تنخواہ کے ساتھ بہترین سہولیات دی جاتی ہیں 2017میں خیبر پختونخوا کی حکومت 30ہزار روپے تنخوا ہ دیکر انجینئر سے کہتی ہے کہ باقی اپنا بندوبست خود کر و ایک سب انجینئر کی تنخواہ 17ہزار روپے ہے اس اوقات کا انجینئر جب سول سکرٹریٹ پشاور جاتا ہے تو اُس کو ایک کروڑ کے سکیموں کی منظوری لینے اور فنڈ ریلیز کرانے کے لئے 10لاکھ روپے نقد دینے پڑتے ہیں اس مقصد کے لئے وہ اے کلاس ٹھیکہ دار کو ساتھ لیکر جاتاہے اورپیسہ خرچ کر کے فنڈ ریلیز کراتا ہے پھر سکیم سے نکال کر وہ پیسے ٹھیکہ دار کو واپس کر تا ہے یہ تبدیلی آنے کے بعد کا واقعہ ہے 2017کا واقعہ ہے ایک نوجوان انجینئر نے ملک کی سب سی بڑی یونیورسٹی سے ا یم ایس کیا ہو اہے اس کو PhDکے لئے فل برائیٹ سکالر شپ ملنے والا ہے درمیانی عرصے میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سرکاری نوکری پر آیا ہے سول سکرٹریٹ پشاور کا میڑک پاس بابو اُس کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اُس کے پی سی ون پر 20اعتراضات لگا کر واپس کر تا ہے کوئی بھی اعتراض درست نہیں انجینئر حیراں ہو کر ما تحت عملے سے پوچھتا ہے یہ کیاماجرا ہے ما تحت عملہ کہتا ہے صاحب کی میز پر آنے والی فائل 10فیصد سے کم پر منظور نہیں ہو تی’ پہیہ لگاو‘’کلام نکالو‘نوجوان انجینئر کا دل چاہتا ہے کہ اس سسٹم پر لعنت بھیجوسرکار ی نوکری کو لات مارو اوراس کا لے با بو پر ایک گولی خرچ کرو مگر دوسرے لمحے اُس کے والدین یاد آتے ہیں 5ماہ کا بچہ یاد آتا ہے وہ ٹھیکہ دار کو فون کر تا ہے اورکالے با بو کا بھتہ ادا کر تا ہے یہی وجہ ہے ہمارے انجینئر بیرون ملک جانا پسند کرتے ہیں این جی اوز میں کام کرنا پسند کرتے ہیں پرائیویٹ سیکٹر میں جانا پسند کرتے ہیں سرکاری ملازمت میں ذلیل وخوار ہونا پسند نہیں کرتے وہ بینکوں میں نوکری کر تے ہیں سی اینڈ ڈبلیو اور لوکل گورنمنٹ میں آنا پسند نہیں کرتے عمران خان کی حکومت کے 8ماہ رہ گئے ہیں اگر ان 8ماہ مہینوں میں نوجوان انجینئر کو کالے سانپ اورکالے با بو کے کرپشن سے نجات دلانے کا کوئی انتظام کریں تو یہ یاد گار قدم ہو گا اس بات سے تبدیلی کی ابتدا ہو گی ہم بجا طور پر کہینگے کہ تبدیلی آرہی ہے ورنہ فارسی کا مشہور شعر ہے کہ جہاں بھیڑیا آفسر ہو گا کتا وزیر بنے گا اور چوہا داروغہ ہو گا وہاں ویرانی ہی ویرانی ہو گی ۔
گرگ میر،سگ وزیر ،موش رادربان کنند
این چنین ارکان دولت ملک را ویران کنند

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔