چترال میں سیاسی تحریکوں سے جڑی فرسودہ نعرے، کچھ مبالغے، کچھ معالطے….پہلی قسط  

چترال میں آنے والے انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں اورعوام کی ہمدردیاں اور اعتماد حاصل کرنے  اور مخالف جماعت کو نیچا دکھانے کے لئے سیاسی جماعتیں ایڑی چوڑی کا زور لگانے میں مصروف ہیں۔

 یہ حقیقت ہے کہ جب دو پارٹیاں مدمقابل ہوتی ہیں تو پھر اختلاف رائے کا ہونا فطری عمل ہوتا ہے۔ معاشرے سے عوام اور عوام سے حکومتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ معاشرے میں مختلف الخیال شخصیات بھی ہوتی ہیں اور اتفاق رائے رکھنے والے بھی ہوتے ہیں، یعنی سب کو اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے۔ اسی کا نام ’’جمہوریت‘‘ ہوتا ہے لیکن اس کی اصل روح یہی ہوتی ہے جو معاشرے میں تہذیب و اخلاق، قوت برداشت، صبر و تحمل کا ہونا ضروری ہے، ورنہ معاشرے میں خرابی پیدا ہونا فطری تقاضا بن جاتا ہے۔ اور یہی وہ المیہ جو چترال میں تعلیم یافتہ اور ترقی پسند طبقہ محسوس کر رہا ہے کہ اکثر سیاسی جماعتیں اب بھی 1970 سے 2008 تک کی دھائی کے مقبول و معروف نعروں کے سحر سے باہر نہیں نکل سکیں ہیں اور آج بھی حقیقی بنیادی مسائل کی جنگ لڑنے کے بجائے تفرقہ بازی اور نفرتوں کے بیچ بویے جا رہے ہیں۔

 چترال میں استحصالی نظام کے خلاف سب سے موثر آواز ذوالفقار علی بھٹو کے زیر سایہ نکالا گیا جو عوام کی آواز بن گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا قلیل عرصہ دور حکومت جو چار سالوں پر محیط ہے،اس کے اثرات آنے والے پچاس سالہ پاکستان کی تاریخ کے اوپر مرتب ہوئے ہیں۔بھٹو کی لینڈ ریفارم نے جاگیرداری ،سرداری ،بڑی زمینداریوں،وڈیرا شاہی کے علاوہ خانقاہی جاگیرداریوں اور زمینداریوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ،ان کے صدیوں پرانے ظلم اور استحصال کے طور طریقوں کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ،بھٹو کی زرعی اصلاحات نے ان کو زمین کی وراثت کے اندر بہو،بیٹیوں،بیویوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو شامل کرنے پر مجبور کر دیا جس نے وڈیرا شاہی کے روایتی خاندانی نظام کے اوپر گہرے اثرات مرتب کیے۔

  اور شاید یہی وہ بنیادی عوامل تھے جو پیلی بار چترال کے عوام کو اپنی آواز اور اہمیت اور طاقت کا احساس دلایا جس کے نتیجے میں چترال سے بھی صدیوں سے قائم غیر انصافی معاشی ڈھانچے اور جاگیردای کے خاتمے کی صورت میں بہت سے عوام دوست اصلاحات کا نفاظ کیا گیا۔

خیر 1970 کی انتخابی مہم میں لوگوں نے بھٹو کی قیادت میں جن جاگیرداروں سے جنگ کی تھی وہ 1971میں بھٹو کے شانہ بشانہ تھے اور اس پائے کے وہ لیڈر ان جن کی تقریروں کی گھن گرج سے بادل بھی کانپتے تھے بھٹو کی انتخابی مہم میں شامل نہیں تھے  اور وہ سماجی انقلاب جو بٹھو صاحب لانا چاہتے تھے مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ گئی

 1970 کے بعد جتنے بھی سیاسی پارٹیاں آئیں انہوں نے بھی اسی بھٹو کےسماجی اصلاح کے ایجنڈے اور پیپلز پارٹی کے نعرے کی غیر منتقی تعریف اور تقلید کی اور واقعی میں ایک ایسا بلبلہ تخلیق کیا گیا جو چترال میں بسنے والےعوام کے بیچ قوم پرستی، باہمی منافرت اور طبقاتی تفریق کے پھیلاو کا سبب بنا اور یہ سلسہ کسی نہ کسی شکل میں تاحال جاری ہے اور اس نفرتیں پھیلانے والی اس بہتی گنگا میں کم و بیش تمام جماتیں بشمول مولانا مودودی جیسے عظیم مفکر کی دینی جماعت نے بھی ہاتھ دھوئے ہیں۔ اگر کوئی جماعت اس گند میں پڑھنے سے بچا چلا آ رہا ہے تو وہ جمیعت علماء اسلام (ف) ہے جو آج تک اپنے مخصوص طرز سیاست میں سیٹیں جیتا یا ہارتا آ رہا ہے۔ اور تو اور پاکستان تحریک انصاف جسکو معرض وجود میں آئے ہوئے ابھی چند سال ہو گئے ہیں جن کے لیڈر کا نعرہ ہے “ہم پاکستانیوں کو اکھٹا کریں گے” یہ جماعت بھی چترال کی “مخصوص” سیاست کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

 اکژسیاسی جلسوں یا اجتماعات کا جائزہ لیا جائے تو عام تاثر یہ ملتا ہے کہ ہمارے لیڈران عوامی جلسوں میں عوام کے اندر احساس کمتری، احساس ندامت، قومی و علاقائی تاریخ سے نفرت اور بیزارگی،نسل پرستی کا فروع یا علاقے میں بسنے والے دوسرے قبائل یا افراد کی قومیت کی بنیاد پر تزلیل اور انتقامی سیاست کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بات سوچنے کی ہے کہ کیا اسی کو لیڈرشپ کہتے ہیں!! حالانکہ لیڈرشپ کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ لیڈر قوم سازی کرتا ہے اور تاریخ اور تہزیب و تمدن کے حوالے سے عوام کے اندر احساس تفاخر اجاگر کرتا ہےاور عوام کو تعصبات سے بالاتر کر کے ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔

چترال میں سیاسی اکابرین کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دور اب بدل چکا ہے۔ آج کا نوجوان ان گھسی پٹی باتوں پر کان نہیں دھرے گا اور نہ دھرنی چاہئے۔ چترال کا معاشرہ بنیادی طور پر ایک جمہوری معاشرہ ہے۔ دنیا چترال کی تہزیب و ثقافت کی عظمت کا قائل ہے۔ آج کا نوجوان اگر ووٹ ڈالے گا تو اس پارٹی کو دے گا جو یہاں کی معاشی ترقی کا ضامن ہوگا۔ جو سماجی نا ہمواریوں کا خاتمہ کرے گا۔ جو مزہبی رواداری کو فروع اور احترام انسانیت کا داعی ہوگا اور جو یہاں سے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ کرے گا۔ ضروری نہیں کہ یہ کام کسی  پارٹی  کے پلیٹ فارم تلے انجام پائے کوئی آزاد امیدوار بھی چترال کے عوام کے امنگوں کا مرکز ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔