صدابصحرا ….آبیل مجھے مار

…………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ ……
ایک طرف دوبئی اور لندن میں پاکستان پر حکمرانی کے مختلف طریقوں پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے دوسری طرف عدالت نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کیس میں سابق صدر جنرل مشرف کو اشتہاری قرار دے کر نئی رخنہ اندازی کی ہے تیسری سمت میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اندر انہونی باتیں ہو رہی ہیں قومی اسمبلی نے امریکہ کے ساتھ ایران کے طرز پر قطع تعلق کی قرار داد متفقہ طور پر منظور کیا ہے ایوان بالا یعنی سینٹ میں گم شدہ شہریوں کے حوالے سے فوجی اداروں کو ’’ریاست کے اندر ریاست ‘‘کا طعنہ دیا گیا ہے پی پی پی کے فرحت اللہ بابر اور رحمان ملک نے پارلیمنٹ کا اجلاس بند کمرے میں بلانے کی تجویز دی ہے رحمان ملک کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس دستاویزی ثبوت ہیں جو وہ بند کمرے کے اجلاس میں پیش کرینگے گو یا 5جولائی 1977 ء اور 12 اکتوبر 1999والی صورت حال پیدا کی جارہی ہے نبض شناسی کے ماہرین نے جی ایچ کیو کے حوالے سے فیلر (Feeler) چھوڑدیا ہے کہ پاک فوج کے سابق سربراہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہیرو جنرل (ر)راحیل شریف اگلے 3 مہینوں میں سیاست کے راستے منظر عام میں آئینگے قوم کی خاطر سعودی اتحاد کی فوج سے الگ ہو جاینگے اور ٹیکنو کریٹس پر مشتمل قومی حکومت کی قیادت کر کے ملک میں احتساب کا عمل شروع کرینگے 2018 والے الیکشن اُس وقت تک نہیں ہونگے جب تک احتساب کا نیا عمل مکمل نہیں ہو جاتا قومی سلامتی کے اداروں اور بین لا قوامی ایجنسیوں نے رپورٹ دی ہے کہ این اے 120 میں PTI کے اُمیدوار کی شکست کے بعد بیگم گلثوم نواز وزیر اعظم بننے جارہی ہیں ان کے میاں مر د اول کی حیثیت سے پھر پی ۔ایم ہاوس میں ہونگے دختر اول بھی واپس پی ایم ہاو س میں آجا ئینگی وہ دن اسٹبلشمنٹ کیلئے مشکل ترین دن ہوگا کو شش کی جارہی ہے کہ وہ دن نہ آئے اس صورت حال کو’’آبیل مجھے مار ‘‘کے ضر ب المثل کی روشنی میں ٹھیک طرح سے پرکھا اور جانچا جا سکتا ہے 1977 ء میں نو جوان نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنا یا گیا تو وہ جی ایچ کیو کے لئے قابل قبول تھا اُس کے باپ کی گہری دوستی آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی غلام جیلانی ٰخان کے ساتھ تھی ضیاء الحق کی حکومت آنے سے پہلے ہی میاں محمد شریف کنگ میکر بن چکا تھا پاکستان نیشنل الائنس کی تحریک میں میاں محمد شریف کا نمایاں کر دار تھا ملاملٹری الائنس میں وہ پل کا کر دار ادا کررہا تھا لاہو ر،کر اچی اور روالپنڈی کے سینئر صحافیوں کے پاس اُس دور کی ان کہی کہانیاں بھی ہیں اور اُن کہانیوں کے ثبوت بھی ہیں اس وقت مقتدر حلقوں کے پاس دو متبادل راستے ہیں پہلا راستہ یہ ہے کہ نعیم بخاری ،بابر اعوان یا کسی تیسرے وکیل کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے اسمبلیوں کو توڑا جائے گا 90 دنوں کے اندر نئے انتخابات کی تاریخ دی جائیگی اور کھیل کا پانسہ پلٹ دیا جائے گا رحمان ملک ،فرحت اللہ بابر اور دوسرے لیڈروں سے کہا جائے گا کہ پارلیمنٹ سے باہر آکر کسی چو راہے پر بیان دو اس کے علاوہ دوسرا متبادل یہ ہے کہ صدر مملکت اور وزیر اعظم کے ذریعے پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے نئی حکومت کی راہ ہموار کی جائے گی ایک افواہ یہ بھی ہے کہ این اے 120 کے انتخابات میں بیگم کلثوم نواز کی متوقع کامیابی کے فوراًبعد لاہور میں بڑے پیمانے پر ہنگامے ہونگے فوج بلائی جائے گی کر فیو لگایا جائے گا پھر ہنگامے دوسرے شہروں میں پھوٹ پڑینگے ان ہنگاموں میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوگا اس صورت حال میں اسمبلیاں توڑ دی جائینگی اور ٹیکنو کریٹس کی قومی حکومت کیلئے راستہ ہموار کیا جائے گا گذشتہ 5 ہفتوں کے اخبارات میں ایسی رپورٹیں لگوائی گئی ہیں اور کالم لکھوائے گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات سے مسائل حل نہیں ہو سکتے پارلیمنٹ میں آنے والے لوگ اکثریت کے نمائیندے نہیں ہوتے وہ 49 فیصد سے کم ووٹ لیکر آتے ہیں منتخب نمائیندے سب کے سب بد عنوانیت کے سمندر میں تیرنے والے ہیں اسٹبلشمنٹ کے پاس فرشتہ خصلت لوگوں کی فہرست ہے ان کو حکومت دی جائے تو سارے مسائل آن کی آن میں ختم ہونگے مسلم لیگ (ن)اور پی پی پی کے سنجیدہ حلقے جمہوریت کو بچانے اور ن لیگ کی مقبولیت کا تا ثر توڑنے کیلئے این اے120 میں ووٹروں کا پانسہ پلٹ کر تیسرے فریق کو کامیاب کرانا چاہتے ہیں تاکہ راولپنڈی کو مثبت پیغام دیا جا سکے اور مو جودہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملے افواہوں میں یہ بھی ایک افواہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں امریکہ اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف غیر لچک دار موقف اختیار کر کے سابق صدر زرداری خود کو سودابازی کی پوزیشن پر لانا چاہتے ہیں تاکہ پنجاب میں شہباز شریف کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکیں اسٹبلشمنٹ اور نواز شریف کی باہمی کھینچا تانی میں 28 جولائی سے اب تک پاکستان کی معیشت کو پانچ ارب ڈالر کا براہ راست ٹیکہ لگ گیا ہے 46 ارب ڈالرکے پاک چین مشترکہ منصوبوں پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ سرد جنگ کی کیفیت شروع ہو چکی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم مزید کتنا نقصان بر داشت کرسکتے ہیں ؟
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔