صدا بصحرا ….جمہوریت کا پاکستانی پودا 

………..ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضیؔ………
1988 ء میں پاک فوج کے چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کا قول زرین اخبارات کی زینت بنا اوراقوال زرین میں جگہ پا کر امر ہوا آپ نے فرمایا تھا ’’پاک فوج جمہوریت کے پودے کی آبیاری کرتی رہے گی ‘‘یہی وجہ تھی کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے آرمی چیف کو تمغہ جمہوریت عطا کیا اسی تمغہ جمہوریت کے بطن سے اصغر خان کیس نے جنم لیا اس کہانی کی کہانی خود کہانی سے بھی لمبی ہے پاک فوج نے جمہوریت کے پودے کی آبیاری کا کام 1956 ء کے آئین کی تاریخ پیدا ئش پر سنبھالا تھا مرزا اسلم بیگ کے دور تک سلسلہ چلتا رہا پھر موجودہ دور تک یہ سلسلہ چل رہا ہے فوج میں ایک روایت سب سے اچھی ہے آنے والا سربراہ جانے والے سربراہ کی پالیسیوں کو جاری رکھتا ہے تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیتا تسبیح کے کسی دانے کو گرنے نہیں دیتا جمہوریت کا پودا پاکستان میں 14اگست 1947 ء کو اُس وقت لگایا گیا جب وطن عزیز کا قیام عمل میں آیا پاکستان کا جھنڈا بھی سب سے پہلے پارلیمنٹ پر لہرایا گیا بلکہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پارلیمنٹ کے اندر لہراکر اس کی منظوری لی اُس وقت کو رکمانڈر کانفرنس کا فورم وجود میں نہیں آیا تھا آج میرا دل بہت گھبرایا تو سوچا کیوں نہ جمہوریت کے پودے سے براہ راست گفتگو کی جائے اور یہ بات پوچھی جائے کہ اس کی آبیاری کون کرتا ہے ؟ سیوا کون کر تا ہے ؟ جڑوں میں پانی کون ڈالتا ہے ؟ میں نے جمہوریت کے پودے سے انٹر ویو کا وقت لیا وقت مقررہ پر جمہوریت کا پودا ملاقات کے کمرے میں جلوہ افروز ہوا تو میں کسی تمہید کے بغیر سوال کیا حضور فیض گنجور جمہوریت جی !آپ اتنے کمزور ،نحیف و نزاد اور سرا کے بیمار کیوں نظر آتے ہیں ؟سوال تیکھا تھا جواب پھیکا آیا پودے نے کہا وہ جو مجھے پانی نہیں دیتا ہے اس کو پتہ ہے مجھے کوئی خبر نہیں میں نے وجہ پوچھی تو ارشا دہوا ’’سراپا درد ہوں دکھ بھری ہے داستان میری ‘‘پھرانکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے پودا گویا ہوا ،میں سخت جان ہوں میری جڑیں کبھی جواب نہیں دیتیں جب بھی میں جڑپکڑ تا ہوں ہرا بھر درخت بننے کی کوشش کرتا ہوں مجھ کو پانی دینے والا آبیاری کیلئے آتا ہے جڑوں کو پانی دینے سے پہلے پیار سے محبت سے مجھے جڑسے اُکھاڑ تا ہے میری جڑوں کو ایک ایک کر کے دیکھتا ہے پھر مٹی میں دبا کر پانی دینا شروع کر دیتا ہے اُس نے ایک بار بھی مجھے جڑوں سے اکھاڑے بغیر پانی نہیں دیا ۔پودے کے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئی اس کی ہچکی بند ہو گئی میں نے کہا فکرمت کرو تمہارا حال مولوی کے مہمان کی طرح ہے مولوی اپنے مہمان کو مسجد میں ٹھہر ا تا تھا طالبعلموں کا کھانا کھلاتا تھا اور طالب علموں کے بستر پر سلاتا تھا ہر روز تاکید کرتا تھا مہمان کو خوش رکھو کہیں ناراض نہ ہو جائے طالب علم تنگ آگئے ایک شام انہوں نے سوچا کہ مہمان سے کس طرح نجات حاصل کی جا ئے جو ترکیب بنی وہ بہت جامع اور قابل عمل تھی ایک طالب علم نے رضا کا رانہ ڈ یوٹی سنبھالی وہ دیکھتا تھا کہ مہمان کی آنکھ لگ گئی ہے یا نہیں مہمان کی آنکھ لگتے ہی وہ آتا مہمان کو جگاتا جگانے کے بعد بڑے ادب سے پوچھتا ’’تم ناراض تو نہیں ہو ؟ہمارے استاد جی نے کہا ہے مہمان کو ناراض نہ ہونے دو‘‘ پھر مہمان کی آنکھ لگ جاتی تو طا لب علم آتا اس کو جگاتا اور اس بات کی تکرار کرتا کہ وہ ناراض تو نہیں ہوااستا د جی نے تاکید کی ہے کہ مہمان ناراض نہ ہو جائے دسمبر کی ایک ٹھٹھر اتی رات کو 28بار مہمان کو جگا کر اس کی خیریت دریافت کی گئی اور ہر بار یہی کہا گیا کہ مہمان ناراض نہ ہو جائے صبح اُٹھ کر مہمان نے توبہ کیا اور کبھی مولوی کا مہمان نہیں بنا یہ اللہ پاک کا کرم ہے کہ جمہوریت کی آبیاری کا ذمہ لینے والوں نے پاکستانی جمہوریت کو صرف 18بار جڑوں سے اکھاڑا ،پانی دیا اور پھر مٹی میں دفن کیا جمہوریت کا پودا آنکھوں میں آنسو لاکر کہتا ہے میں سخت جاں ہوں اب بھی میر ی جڑوں میں سوکھے پن کا مرض نہیں آیا ورنہ آبیاری کرنے والے نے مجھے عدم آباد کا راستہ دکھانے میں کو ئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
مگر یہ کہ رفت گیا اور بود گیا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔