ڈی ۔سی صاحب  کا پہلا ایکشن ، کیا کوِئی ری ایکشن بھی ہوگا

ملا ناصرالدین ایک ترکش مزاحیہ فنکار ، “”ایک مرتبہ ملا ناصر الدین  کے پاس ایک آدمی   آیا اور خط پکڑا کر کہا کہ وہ خط پڑھ کر اسے سنا دے۔ ملا ناصر الدین نے معذرت کیا کہ اسے پڑھنا نہیں آتا، مگر اس شخص نے طنز کیا اور کہا کہ پگڑی دیکھ کر بڑا عاِلم نظر آتے  ہو اور خط پڑھنا نہیں آتا۔ اتنے میں ملا ناصرالدین  نے پگڑی اتار کر اس کے سر پر رکھا اور بولا کہ لو جی اگر پگڑی سے خط پڑھا جاتا ہے تو  اب آپ یہ خط پڑھ لو”” ۔۔۔۔ گو کہ بظا ہر یہ ایک لطیفہ ہے مگر حقیقت میں یہ ہمارے معاشرتی زندگی کی عکاسی کرتاہے۔ ہم کسی بھی چیز یا کسی بھی شخص کی ظاہری حالت دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتاہے۔ ہمیں مسجد کے سامنے بیٹھا ہوا  ہر شخص نمازی، جبکہ میخانے کے باہر بیٹھا ہو ا ہر شخص شرابی نظر آتا ہے، جبکہ مسجد کے سامنے بیٹھا ہوا    ہر شخص نمازی اور نہ ہی میخانے کے سامنے بیٹھا ہوا ہر شخص شرابی ہوتا ہے۔ آنسو خوشی کے بھی ہوتے ہیں اور کوئی بہت سارا دکھ دل میں لئے مسکرا بھی سکتا ہے۔ مگر ہمیں کبھی بھی جلد بازی میں رائے قائم نہیں کرنی چایئے۔ کیونکہ ہماری کسی غلط رائے یا غلط اقدام سے معاشرے میں توازن بگڑ سکتا ہے یا آئندہ کے لئے ہمارے کسی رائے یا کئے گئے اقدام کی اہمیت ختم ہو سکتی ہے

   گذشتہ روز ڈی۔سی چترال کے آفس کا  ایک نوٹفیکیشن سوشل میڈیا میں چترال کے آن لائن اخبارات کے ذرئعے شیئر کیا گیا ، تو چترال سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دار صارفین کی طرف سے ڈپٹی کمشنر چترال کے حق میں زبردست کمنٹس دئیے جانے لگے۔ اور کچھ لمحے کے لئے یوں لگا کہ چترال میں نئے ڈی۔سی صاحب کی آمد سے سارے مسائل حل ہوگئے اور سارے محکمے کے غیر زمہ دار لوگ ایک دم سدھے ہوگئے اور یوں سرکار کا سارا نظام ضلع بھر میں پٹڑی پر چڑھ گئی۔

یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ کیونکہ ڈپٹی کمشنر صاحب اگر چاہیں گے تو اپنے ماتحت سارے اداروں کو درست کر سکتے ہیں  اور میڈیاکے  توسط سے ان کے مثبت اقدامات کا خوب چرچا بھی ہوگا اور چترال کے چپے چپے میں موجود سرکاری ملازمین غفلت برتنے سے گریز کریں گے اور یوں چٹکی بھر میں سارا نظام درست ہوگا مگر یہاں صورت حال مختلف ہے۔ ڈی۔سی صاحب نے ڈسٹرک ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ڈی۔ایم۔ایس اور دیگر دو ملازمین کو معطل کردیا اور وجہ یہ بیان کیا گیا کہ ڈیوٹی میں غفلت برتنے کی وجہ سے انہیں معطل کیا گیا  اور انکوائری کے لئے حکم صادر فرمائیے گئے۔  ہمیں ایک لمحے کے لئے یہاں رُکنا ہوگا، اور دیکھنا ہو گا کہ کیا ڈی۔ایچ ۔کیو میں ویسٹ مینجمنٹ کا کوئی معقول سسٹم موجود ہے؟ کیا ضلع بھر میں کوڑاکرکٹ کو ٹھکانہ لگانے کا کوئی انتظام موجود ہے؟ کیا دریائے چترال کو بلکل صاف ستھرا رکھا گیا ہے؟ ۔۔۔۔ تو یقیناً ضلعی انتظامیہ کا جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ جہاں سہولیات ہی نہیں ، تو وہاں غفلت کیسا؟؟  ۔۔۔۔۔ ڈی۔ایچ ۔کیو   چترال صوبے کے ان ہسپتالوں میں سے ایک ہے جہا  ں ویسٹ مینجمنٹ کاکوئی نظام موجود نہیں ہے ۔ البتہ ہسپتال میں انسینیریٹر مشین موجود ہے مگر اسے چلانے کے لئے ٹیکنیکل اسٹاف اور نہ ہی مطلوبہ مقدار میں برقی قوت !! مگر   ڈی۔ ایچ۔کیو کے اسٹاف اور ڈی۔ایم۔ایس کویہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ ان نامساعد حالات کے باوجود اب تک ہسپتال کوکوڑا کرکٹ سے صاف رکھے ہوئے ہیں اور اب تک ہستپال کے اندار کوئی گند پھیلنے نہیں دِیئے۔ ان کے پاس ویسٹ مینجمنٹ کا کوئی جگہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی ضلعی انٹظامیہ اس بارے میں سنجیدہ ہے۔ ٹی۔ایم۔او ۔ کی طرف سے شیاقو ٹیک میں جگہ خرید کر دیا گیا تھا۔ مگر وہاں کے رہائشی لوگوں نے ہسپتال انتظامیہ پر پتھرائو کئے اور گاڑی کے شیشے بھی توڑ دیئے اور وجہ یہ بیان کئے کہ ان کوڑاکرکٹ کی وجہ سے ان کا یہاں رہنا محال ہو گیا ہے لہذا آئندہ یہاں گند نہ ڈالا جائے ۔ اسطرح ہسپتال کے اسٹاف اپنی مدد آپ کے تحت پرانی گاڑی کو مرمت کرکے یہ گند کو ٹھکانہ لگاتے چلے آرہے ہیں۔ ہسپتال عملے کے پاس ویسٹ اٹھانے کے لئے گاڑی نہیں، ویسٹ جلانے کے لئے مشین نہیں، ویسٹ ڈالنے کے لئے جگہ نہیں، مگر پھر بھی ایک دن ایسا نہیں  آیا کہ ہسپتال میں ویسٹ بھرنے کی وجہ سے کسی مریض کا علاج رک گیا ہو، یا ان ویسٹ کی وجہ سے کسی انسانی جان کو نقصان پہنچ چکا ہو، کبھی نہیں۔ ہسپتال میں بجلی نہیں ہے، پانی نہیں ہے، مگر صفائی کے حوالے سے ابتک کوئی شکایت موصول نہیں ہوا۔ مگر ہم لوگ فیس بک پر کمنٹس دینے کے عادی بن چکے ہیں ۔ ہمیں کوئی حقیقت معلوم ہو یا نہ ہو، کسی معاملے کی تہہ تک پہنچے بیغیر فوراً رائے قائم کرتے ہیں۔ اور وقت آنے پر شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

اب میں یہ سوال پوچھتا ہوں ان تمام لوگوں سے جنہوں نے ہسپتال کے اس ایشو پر آواز اٹھا رہے ہیں اور شور مچا رہے ہیں کہ دریا کو گندا کیا جارہا ہے۔ کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ یارخون سے لیکر بونی تک ، گرم چشمہ سے لیکر ارندو تک ، جتنے بھی ویسٹ  جمع ہوتے ہیں انہیں دریا میں ڈال دیا جاتا ہے۔ حتکہ قصاب براداری سے تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ مرغی کے انتون سے لیکر پائوں تک، کھال سے لیکر بال تک سب اسی دریا میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اور تو اور اگر کوئی جانور مر جاتا ہے تو اسے بھی دریا میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مگر کوئی ویڈیو منظر عام پر نہیں آتا۔ کوئی آواز نہیں اٹھایا جاتا ۔ کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ ہسپتال کے عملے کی کارکردگی کو کوئی سپورٹ کرتے، کہ وہ کتنے مشکل حالات میں ابتک ویسٹ کو ٹکانے لگا رہے ہیں۔ ضلع ناظم،  ایم۔این۔اے، ایم۔پی۔ایز سمیت تمام ذمہ داروں   کو یہ معلوم ہے کہ ہسپتال میں ویسٹ  مینجمنٹ کوئی نظام موجود نہیں ہے ۔ مگر کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں، اور ہوگا بھی کیسا، کیونکہ ہمارے نام نہاد لیڈران عوامی مسائل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ اور ہسپتال میں اس وقت تشریف لاتے ہیں جب کسی کی عیادت کرنی ہو۔ اور خاص کرکے ایسے مواقع پر جب کوئی حادثہ ہوا ہو اور بہت سارے لوگ ہسپتال میں لائے گئے ہوں ۔ اور یہ سیاسی لوگ ہسپتال میں آتے ہیں مریضوں کے ساتھ ہاتھ ملا  کر تصویر نکال کر اپلوڈ کرتے ہیں اور اس حرکت کو  بھی یہ کارکردگی میں شمار کرتے ہیں۔

لہذا ڈی۔سی صاحب سے ہماری گذارش یہ ہوگی کہ  کوئی بھی انتہائی اقدام اٹھانے سے پہلے کم ازکم ایک مرتبہ متعلقہ ادارے کے سربراہ سے یہ معلوم کیا جائے کہ ان پاس تمام سہولیات میسر ہیں، اگر جواب ہاں میں آتا  ہے تو کوئی بھی اقدام سنجیدہ تصور کیا جائے گا ۔ ورنہ یہ ایکشن اسطرح بے کار ثابت ہونگے  کہ جن کوئی ری ایکشن نہیں ہوگا۔ اور ڈی۔سی صاحب کی خدمت میں یہ گذارش بھی کرتا چلوں کہ سر جی ! فرسٹ ایمپریشن از دی لاسٹ ایمپریشن۔

اللہ تعالی ہم سب کو تحقیق کرنے کی جستجو عطا فرمائے۔ امین۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔