پولیس کی وی آئی پی ڈیوٹیاں

………….محمد شریف شکیب……

پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا حکومت اور انسپکٹر جنرل پولیس سے وضاحت طلب کی ہے کہ صوبے میں کتنے پولیس اہلکار منتخب اراکین اسمبلی، سرکاری افسران اور اہم شخصیات کے ساتھ سیکورٹی کی ڈیوٹی پر ہیں۔ عدالت عالیہ نے صوبائی حکومت اور آئی جی پی پر واضح کردیا ہے کہ 24اکتوبر تک عدالت کے سامنے اعدادوشمار پیش نہ کئے گئے۔ تو عدالت اپنا فیصلہ دے گی۔اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا پولیس کی افرادی قوت 9ہزار افسروں اور اہلکاروں پر مشتمل ہے جن میں سے ساڑھے پانچ ہزار اہلکار اہم شخصیات کے ساتھ وی وی آئی پی اور وی آئی پی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ جبکہ تین کروڑ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت، جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے، ٹریفک کا نظام سنبھالنے اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے چار ہزار اہلکار دستیاب ہیں۔گویا اہم شخصیات کی جانیں تین کروڑ عوام کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ ان کی حفاظت بدامنی ختم کرنے، جرائم پر قابو پانے اور دہشت گردوں کا صفایا کرنے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ عدالت عالیہ میں جمع کرائی گئی درخواست میں بتایا گیا ہے کہ ملاکنڈ میں 271، مردان172، ڈیرہ52، ایبٹ آباد59، کوہاٹ 38، کرک 9، ہنگو 10، دیر پائین میں 101پولیس اہلکار وی آئی پیز ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ دیگر اضلاع میں بھی عوام سے زیادہ وی آئی پیز محفوظ ہیں۔جبکہ پشاور کی آدھی پولیس وی آئی پیز کی حفاظت پر لگادی گئی ہے۔ اہم شخصیات کی حفاظت پر صرف پولیس اہلکار ہی تعینات نہیں کئے گئے بلکہ ان پر اس غریب قوم کے خزانے سے ماہانہ کروڑوں روپے بھی خرچ کئے جاتے ہیں۔خیبر پختونخوا جیسے غریب صوبے کی مالی ضروریات کا 80فیصد مانگ تانگ کر پوراکیا جاتا ہے۔ کچھ پیسے وفاقی حکومت دیتی ہے۔ کچھ مالیاتی کمیشن سے حاصل ہوتے ہیں۔ باقی ضروریات غیر ملکی امداد اور بینکوں سے قرضے سے کر پورے کئے جاتے ہیں۔مانگے کے وسائل سے صرف ناگزیر ضروریات ہی پوری کی جاسکتی ہیں۔ بھیک کے پیسوں سے عیاشی نہیں کی جاسکتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوامی نمائندوں اور افسروں کو واقعی سیکورٹی کی ضرورت ہے؟ اگر انہیں سیکورٹی درکار ہے تو کیا حکومت ہی انہیں قومی وسائل سے سیکورٹی فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے؟عوامی نمائندے اور افسران اپنے فرائض کی انجام دہی کے عوض بھاری تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں۔ قومی خدمت کی وجہ سے ان کی زندگی کو خطرہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ایسی بات ہوئی تو عوام خود ان کی حفاظت کریں گے۔بصورت دیگر انہیں اپنی حفاظت کا خود انتظام کرنا چاہئے۔ وہ پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ اس سے قومی خزانے پر بوجھ کم ہوگا۔ پرائیویٹ گارڈز کی مانگ بڑھنے سے ہزاروں افراد کے لئے روزگار کے دروازے کھل جائیں گے۔ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوگا۔ اور اس کلچر سے منسلک مصیبتوں سے غریب عوام کو نجات مل جائے گی۔بات پولیس کی وی آئی پی ڈیوٹی پر ختم نہیں ہوتی۔ صوبے کی اہم پیرا ملٹری فورس ایف سی کا بھی یہی حال ہے۔ کراچی سے گوادر اور اسلام آباد تک ایف سی کے بیشتر اہلکاروں کی ڈیوٹیاں اہم شخصیات کی حفاظت پر لگائی گئی ہیں۔ اہم عمارتوں اور تنصیبات کی حفاظت اور ملک میں موجود غیر ملکی سفارتکاروں ، مختلف منصوبوں میں کام کرنے والے انجینئرز کی سیکورٹی ایک قومی ضرورت ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ اور یہ کام وی آئی پی کلچر کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہمارے جن لیڈروں کو سیکورٹی فراہم کی گئی ہے اگر واقعی انہیں سیاست کی وجہ سے جان کو خطرہ ہے۔ تو انہیں قوم پر بوجھ بننے اور اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے کے بجائے سیاست سے ہی کنارہ کش ہونا چاہئے۔ تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔توقع ہے کہ عدالت عالیہ وی آئی پیز ڈیوٹیوں کے حوالے سے کیس میں ایسا تاریخی فیصلہ دے گی جس سے وی آئی پی کلچر کی لعنت کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔وی آئی پی کلچر گزیدہ بیچارے عوام کی نظریں عدالت عالیہ کے فیصلے پر مرکوز ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔