جس کھیت سے دھقان کو میسر نہیں روزی۔ ۔ ۔ ۔سی پیک کی آمد پر۔۔۔۔۔

پروفیسر رحمت کریم بیگ
03435911941

آج کل سی پیک کا بڑا چرچا ہے اور حکومت چین کی طرف سے پاکستان کے ساتھ خیر سگالی کے طور پر چھیالیس ارب ڈالر سرمایہ کاری کی بڑی تعریف ہونے لگی ہے کہ اس سے ہماری انفرا سٹرکچر میں انقلابی تبدیلی آئے گی روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور نجانے کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی اور پاکستان کہاں سے کہاں پہنچے گا۔ سب کا بھلا ہوگا۔ تصویر کا ایک پہلو یہ ہے جو خوابوں کی دنیا کا ایک حسین منظر ہے ہمیں اس کے ساتھ دوسرے پہلو کو بھی دیکھنا چاہئے کہ چین یہ سرمایہ کاری کیوں کر رہا ہے۔ در اصل چین کی معیشت اتنی پھیل چکی ہے کہ اس نے دنیا کے تمام ممالک کے مارکیٹس میں داخل ہوکر اپنا سستا مال بیچ کر تمام ممالک کو اپنے بارے میں تشویش میں ڈال دیا ہے کیوں؟
چین میں سستی بجلی کوئلہ سے پیدا کی جاتی رہی ہے اور کوئلہ کے دھوئیں سے گرین ہاوس گیسوں کی مقدار میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اس بناء پر عالمی پیمانے پر چین پر سخت تنقید شروع ہوئی اور اسے اس آلودگی کو پچیس فیصد کم کرنے کا ٹاسک دیا گیا تو چین نے اپنے سارے کوئلہ والے بجلی گھر بند کرکے اس کی جگہ سولر اور ہوائی چکی اور پن بجلی کے نظام کو رائج کیا اب ان تمام کوئلہ والے مشینوں کو کباڑ میں بیچنے کی بجائے انہیں سالم حالت میں کسی کو بیچنا مناسب سمجھا اور اس کے لئے بہترین ملک پاکستان ہی تھا جہاں بجلی کی شدید قلت ہے اور پاکستان چین کی ہر بات بسرو چشم تسلیم بھی کرتا ہے اور یہاں صنعتی زون قائم کرکے ان مشینوں کو چالو کرنا آسان ہے کہ اس کوئلہ والی بجلی سے چین کے صنعتی یونٹ چلیں گے پیداوار چین کوملے گا اور دھواں ہمارے حصے میں آجائیگا ، دوسری طرف ہم بھی خوش کہ سرمایہ کاری ہورہی ہے، مال چین کا بکے گا دھواں ہمارے پھیپھڑوں میں جائے گا۔
دوسری طرف جو چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہورہی ہے وہ مفت کا مال یا تحفہ یا صدقہ نہیں ہے بلکہ یہ آسان شرح پر قرض ہے جسے پاکستان کو تیس سال کی مدت میں نوے ارب ڈالر کی مقدار میں چین کو واپس کرنا ہے اور اتنا قرض ادا کرنے کے لئے ہمیں ائی ایم ایف سے مزید قرضے لینے پڑیں گے اور سود در سود کا یہ سلسلہ کبھی ختم ہونے پہ نہیں آئیگا۔ ہمارے پاس نہ خام مال ہے اور نہ تیار مال کہ تیار مال کے لئے بنیادی چیز بجلی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے دریا ہیں پر پن بجلی کوئی نہیں بناتا، ابھی تک دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے زمین کی خریداری ہی پوری نہیں ہوئی اور اندا زہ کیجئے کہ اس کی تعمیر میں کتنے سال لگیں گے؟ یہ بھی کالا باغ ڈیم جیسا ایک خواب و خیال ہے۔ سیاست دان مال بنانے میں لگے ہیں ملکی برآمدات روز بہ روز کم ہوتے جارہے ہیں درآمدات بڑھتے جارہے ہیں کہ آبادی کا ایک سیلاب ہے جسے کھلانے کے لئے زرعی پیداوار میں کوئی نمایاں اضافہ دیکھنے میں نہیں آتا ملکی برآمدات کی حالت پر ایک رپورٹ بعد میں آپ کی خدمت میں پیش کی جائیگی، اس وقت بس یہی کافی ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔