صدابصحرا ….چترال کا تعلیمی بورڈ

چترال کے 40ہزار طلبا اور طالبات پشاور کے تعلیمی بورڈ میں امتحان دیتے ہیں سوات بورڈ بننے کے بعد چند سالوں کے لئے چترال کے تعلیمی اداروں کو سوات بورڈ سے منسلک کیا گیا مگر تجربہ نا کام ہوا پھر پشاور بورڈ سے منسلک کیا گیا اب حکومت کے ایوانوں میں یہ تجویز گردش کر رہی ہے کہ چترال کے تعلیمی اداروں کو ملاکنڈ بورڈ سے ملحق کیا جائے ریگولیٹری اتھارٹی کے انتخابات کے لئے چترال کو ملاکنڈ بورڈ سے ملادیا گیا تو نجی تعلیمی اداروں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا اُن کا موقف یہ تھا کہ جب تک چترا ل کا الگ تعلیمی بورڈ نہیں بنتا ہم پشاور بورڈ کا حصہ رہینگے جو ملاکنڈ اور چکدرہ کی نسبت زیادہ آسان اور سہل الحصول ہے بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجو کیشن پشاور کے موجودہ چےئر مین ڈاکٹر فضل الرحمن نقل کے حوالے سے بہت حساس واقع ہوئے ہیں انہوں نے امتحانات میں نا جائز ذرائع کے استعمال کو روکنے کے لئے کئی اہم اقدامات کئے ان کے سامنے چترال کا رقبہ بہت بڑا مسئلہ ہے 14850 مربع کلومیٹر کا علاقہ اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کو ارٹرسے 270کلومیٹر دور امتحانی سنٹر کا قیام اور امتحانات کا انعقاد بڑا مسئلہ ہے 2016  میں میٹرک کے کئی طلبہ امتحانی ہال سے گھر جاتے ہوئے کریم آباد کے علاقے میں برفانی تودے کی زد میں آکر جان بحق ہوئے نیز طلبہ و طالبات کی زیادہ تعداد کی وجہ سے پشاور بورڈ کو چار جلدوں میں گزٹ بک شائع کر نا پڑتا ہے دوسال پہلے طالب علموں کی سوسائیٹی نے حکام کو ایک عر ضداشت پیش کی تھی عر ضد اشت کی وضاحت کرتے ہوئے مسعود الرحمن ،جہانز یب اور اشفاق احمد نے تین امور پر زور دیا تھا پہلی بات یہ تھی کہ نقل کی روک تھام اور امتحانی ہالوں پر مو ثر کنٹرول کے لیے چےئر مین ، سکریٹری اور کنڑولر کا چترال میں بیٹھنا بہت ضروری ہے تاکہ 34 وادیوں پر مشتمل 270 کلو میٹر لمبے 55 کلومیٹر چوڑے ضلع کے دو ر دراز علاقوں میں قائم سکولوں ،کالجوں اور امتحانی سینٹروں کا دورہ، حالات سے واقفیت بورڈحکام کے لئے آسان ہو اور قابو سے باہر نہ ہو طلبا اور طالبات کا یہ موقف ہے کہ ہر بورڈ میٹرک اور ایف ایس سی میں ٹاپ ٹونیٹی میں 20 طلبا ، طالبات کو لاکھوں روپے کے وضائف دیتی ہے چترال کا طالب علم ٹاپ ٹو ئینٹی حاصل کر نے والوں میں کبھی کھبار ہی آتا ہے اگر 40 ہزار اُمیدوار وں کے لئے الگ بورڈ بن گیا تو ٹاپ ٹو ئینٹی کے 40 وظا ئف چترال کے طلبا او رطالبات کو ملینگے یہ انعامات اور وظائف ایک غریب اور متوسط خاندان کے طالب علم کے دوسال کی تعلیم کے اخراجات پورے کرتے ہیںیہ چترال کے عوام کے لئے بہت سود مند ثابت ہونگے پشاور اور چکدرہ بورڈ میں 91 فیصد نمبر لیکر بھی کوئی طالب علم ٹاپ ٹوئینٹی میں نہیںآتا اور 40 بڑے وظائف یا انعامات سے چترال کے طالب علم ہر سال محروم رہتے ہیں موجودہ حکومت نے تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے پانجویں جماعت اور آٹھویں جماعت سے بورڈ کے امتحانات کا سلسلہ متعارف کرا یا گیا ہے یہ نصاب میں دئیے گئے رہنمااصولوں کے مطابق ہونگے ان اصولوں کو ہر جماعت کا ایس ایل او (SLO)کہا جاتا ہے انگریزی میںیہ تین حروف سٹو ڈنٹس لرننگ آوٹ کوم کا مخفف ہیں ہر جماعت کے اہداف کا احاطہ کرتے ہیں یعنی پانجویں جماعت کے اہداف کیا ہیں ؟ آٹھویں جماعت کے اہداف کیا ہیں؟ دسویں اور بارھویں جماعتوں کے اہداف کیا کیا ہیں؟ اُن اہداف کو سامنے رکھ کر امتحان لیا جاجائیگا اس وقت پاکستان میں او لیول ہے ، اے الیول اور آغا خان یونیورسٹی ایجو کیشن بورڈ کے امتحانات نصاب میں دئیے گئے اہداف کے مطابق ہوتے ہیں اگر اگلے دوسالوں میں تمام تعلیمی بورڈوں نے یہ طریقہ رائج کیا تو چترال جیسے بڑے ضلع کے لئے 40 ہزار طلبا و طالبات کے لئے میٹرک اور انٹر کے الگ بورڈ کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جائیگی جو پانجویں جماعت کے 50ہزار اور آٹھویں جماعت کے 35 ہزار طلباء و طالبات کا الگ الگ امتحان نصابی اہداف کے مطابق لینے کا مجا ذ ہو گا چترال کے لئے الگ یونیورسٹی کا مطالبہ پاکستان تحریک انصاف نے پورا کر دیا ،اگر چترال کا تعلیمی بورڈ بھی تحریک انصاف کی حکومت نے قائم کیا تو یہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور چئرمین عمران خان کا یاد گار تحفہ ہوگا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔