……فکر فردا …..نئی انتخابی حلقہ بندیاں

 الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حالیہ مردم شماری کے بعد ملک بھر میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئینی ترمیم کے لئے حکومت کو ایک ہفتے کا وقت دے دیا ہے ۔اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ نے بھی نئی حلقہ بندیوں کی منظوری دی ہے ،اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق نے یکم نومبر 2017ء کو سارے سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں نئی حلقہ بندیوں اور قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں اضافہ کے حوالے سے گفت وشنید کی جائے گی ۔ ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی رپورٹوں کے مطابق حکومت کو قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں 10 فیصد اضافہ کی تجویز دی گئی ہے اس کے بعد قومی اسمبلی کی 272جنرل نشستوں میں اضافہ کرکے 302کرنے کا امکان ہیں۔ حکومت کو دی گئی یہ تجویز چاروں یونٹس میں آباد کی تناسب کو مد نظر رکھتے ہوئے اور 2002ء کے فارمولے کے عین مطابق ہے، اس فارمولہ میں پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے حصے میں آبادی کی نسبت سیٹوں میں کچھ کمی کرکے بلوچستان،فاٹا اور اسلام آباد کو آباد ی کے مقابلے میں زیادہ حصہ دیا گیا تھا،حکومت کو دی گئی تجویز کے مطابق پنجاب سے قومی اسمبلی کی 148نشستوں میں اضافہ کرکے 153،سندھ کے 61 سے 70، کے پی 33 سے 45اوربلوچستان 14سے 18 کر دی جائے گی،جبکہ فاٹابدستور 12 اوراسلام آباد کے 2نشستوں کو برقرار رکھاجائے گا ۔ اگر اس تجویز پہ عمل درآمد ہوتا ہے تو کے پی میں سب سے زیادہ 12نشستوں کے اضافے کا امکان ہے ۔اسی لحاظ سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ متوقع ہیں۔ ساڑھے چودہ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ پر محیط ضلع چترال میں 2002ء تک قومی اور صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست ہوا کرتی تھیں۔ 2002ء کے فارمولہ پر جب قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا تو ضلع چترال کو صوبائی اسمبلی میں ایک کی بجائے دو نشستیں ملی۔ چونکہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور چیرمین پی ٹی آئی جناب عمران خان نے ضلع چترال کو انتظامی لحاظ سے دو اضلاع میں تقسیم کرکے ضلع مستوج کی بحالی کا اصولی فیصلہ کیا ہے ، اس سلسلے میں دونوں رہنما 7نومبر کو چترال کا دورہ کرکے ضلع مستوج کی بحالی کا اعلان کرنے جارہے ہیں ،تو چترال کے سارے سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر سوچ وبچار کے بعد سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متفقہ طورپر چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے پر پی ٹی آئی حکومت اور چیرمین عمران خان کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی مطالبہ کرنا چاہئے کہ چونکہ قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ متوقع ہے اس لئے دونوں اضلاع کے لئے قومی اسمبلی کی ایک ایک اور صوبائی اسمبلی میں ہر ضلع کے لئے دو دو نشستیں مختص کیا جائے ۔ یوں نئے ضلع کی تشکیل کے ساتھ دونوں اضلاع کے لئے الگ الگ ایم این ایز اور دو دو ایم پی ایز کی سیٹس مل سکیں گے ۔ جس سے ان پسماندہ اضلاع کی پسماندگی کو دور کرنے میں مد د مل سکتی ہے ۔ اس کا خاطر خواہ فائدہ تو بہرحال پاکستان تحریک انصاف ہی کو ہوگا جو کہ دونوں اضلاع میں ناقابل تسخیر قوت بن کے ابھر سکتی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی ضلعی قیادت اس سلسلے میں کیا کرسکتے ہیں البتہ ماضی کی روایات زیادہ حوصلہ آفزا نہیں ، اب اگر ضلع کے ساتھ ساتھ قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی حاصل کی جاتی ہے تو یہ پی ٹی آئی کی جانب سے اس خطے پر بہت بڑا احسان ہوگا اور اس کے خاطر خواہ فوائد بھی آنے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو مل سکتی ہیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔