قربتیں اور فاصلے

انسانوں میں جتنی زیادہ قربتیں ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ آپس کی محبت پروان چڑھتی ہے۔ فاصلے اور دوریاں “نظر سے دور دل سے دور”کے مصدق باہمی روابط اور پیار میں سردمہری پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔پیار ومحبت کی ابتدا ماں کی گود سے ہوتی ہے ۔ اور اس کا دائرہ وسیع ہوکر خاندان ،گاؤں اور ملک کی سطح تک پھیل جاتی ہے۔ خونی رشتے کو جہاں پیار ومحبت کی جڑ کی حیثیت حاصل ہے۔وہاں مفادات کے اشترا ک کو بھی ایک اہم عنصر سے تعبیر کیا جائے توغلط نہ ہوگا۔ کیونکہ ایک ہی چھت کے تلے پلنے والے جب جدا ہوتے ہیں تو ذاتی اغراض اور مقاصد کی ڈور خونی رشتے سے مضبوط ہوجاتی ہے۔ مگر اس انسانی فطرت کی حقیقت سے انکارکئے بغیر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ من حیث القوم ہم سرزمین چترال کے باسیون میں رشتے ناتوں کوغرض اور مطلب کے ترازو میں تولنے کا عنصر بہت کم پایا جاتا ہے۔ اور رشتوں کے حقیقی تقدس اور احترام کا دامن چھوٹنے نہیں دیتے ۔مال وزر اور زمین کے لئے اگر رنجش پیدا بھی ہوجائیں تو بھی ایک دوسرے کے لئے ہمارا خون سفید نہیں ہوتا۔ ہم دکھ دینے کی بجائے دکھ بانٹنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں۔امن و اشتی او رباہمی لطف و کرم کی مہک سے ہمارا علاقہ ہر وقت معطر رہا ہے۔ ہم نفرت اور بغض و عداوت کی مرض سے نا اشنا ہوتے ہیں۔
آج صدیاں ایک گھر کی حیثیت سے چترال نام سے موسوم علاقے میں زندگی کے شب و روز بیتنے کے بعد کثرت آبادی کی بنیاد پر انتظامی امور کو احسن طریقے سے انجام دینے کے لئے ہمارے مثالی معاشرے پر مبنی دیس کو دو حصوں میں بانٹ کر دو ناموں سے موسوم کرنا جہان دنیاوی مفادات کے اعتبار سے خوش آئنداقدام ہے وہاں ایک چھت کے اندر رہنے والے بھائیوں کی علیحدہ علیحدہ مکانات میں منتقل ہونے کی کیفیت سے مماثلت رکھتا ہے۔ اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک قسم کی دوریاں پیدا کرنے کا حامل ہونا یقینی امر ہے۔ کیونکہ مشترک اقدار کے لئے مشترک جذبات تقسیم ہونگے۔ اور خود غرضی کے جراثیم پنپنے لگیں گے۔ اس قسم کے قومی امور کی انجام دہی میں اگر نیک نیتی کا جذبہ کا رفرما ہو ۔ تو اجتماعی سطح پر اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر عمومی طور پر اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ سیاسی مصلحتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور ارباب اقتدار ان اقدامات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی طرف خاطر خواہ توجہہ نہیں دیتے۔ اور یوں دونوں اضلاع کے مکینوں میں بد گمانیاں اور باہمی رنجشین جنم لینے اور ایک دوسرے کے حقوق غضب کرنے کے شکوے شکایتیں پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
اس لئے موجودہ صوبائی حکومت سے ہم بجا طور پر یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ نئے ضلعے کے اعلان کو بھولنے کے برعکس یادداشت کو بروئے کار لاتی ہوئی اسے حقیقت کا روپ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیگی۔ اور اس فیصلے کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بناکر نوازائیدہ ضلع کو اس کے جائز حقوق سے مستغیض کرنے کے عمل کو آئندہ حکومت پر نہیں چھوڑیگی۔ تاکہ ہماری دیرینہ باہمی محبت اور یگانگت کو حقوق کا مرض لاحق ہوکر ہماری فطری روایا ت کو متاثر نہ کرسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔