صدا بصحرا ……..الزامات کی سفارت کاری

پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ 38سالوں سے الزامات اور جوابی الزامات کی سفارت کاری ہورہی ہے 12ربیع لاول یکم دسمبر کے روز جمرود روڈ پر زرعی ٹرنینگ انسٹیٹوٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پرانی باتوں کو پھر دہرایا گیا کابل ، جلال آباد یا ہرات میں حملہ ہوتا ہے تو الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے پشاور ، اسلام آباد یا لاہور میں دہشت گردی ہوتی ہے تو الزام افغانستان پر لگایا جاتاہے دسمبر 2014میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو اس کے تمام ذمہ دار افغانی نکلے دیگر حملوں کے ذمہ دار اور ماسٹر مائنڈ بھی افغانستان ہی سے آئے تھے پاکستان کا قوی ترین موقف یہ ہے کہ بھارت نے افغانستان میں دہشت گرد کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں پاکستان کی سرحد کے قریب 12قونصل خانے قائم ہیں جو دہشت گردی کی نرسریوں کا کام دیتے ہیں اگر آپ کابل میں ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ گزاریں تو چار بنیادی حقائق سامنے آتے ہیں افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری ، کابل اور جلال آباد میں اردو اور ہندی کا رواج ، عوامی سطح پر پاکستانیوں کے خلاف نفرت اور ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے خلاف عمومی پروپبگینڈا ۔یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے’’نیا افغانستان‘‘ کابل میں دارلامان ، شہرنو، پل چرخی اور دیگر علاقوں میں گھومیں دوستوں کے گھر جائیں، ہوٹلوں میں کھانا کھائیں، کسی ریستوران میں بیٹھیں ، ٹیلی وژن کا کوئی چینل لگائیں ، کوئی اخبار اُٹھائیں آپ کو پتہ لگتا ہے کہ بھارت نے ذرائع ابلاغ میں سرمایہ لگایا ہے ذرائع ابلاغ پر بھارت کا مکمل کنٹرول ہے یہ سرمایہ افراد پر بھی لگایا گیا اداروں کو قائم کرنے اور فروغ دینے پر بھی لگایا گیا اس کا پھل بھارت کو مل رہا ہے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھارت کی سرمایہ کاری امریکہ سے زیادہ ہے ہر سال ہزاروں طلباء اور طالبات کو سکالر شپ دیکر بھارت بھیجا جاتا ہے افغانستان کے اندر تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ہیں اس طرح افغانستان کے شہروں میں بھارت نے بڑے بڑے ہسپتال قائم کئے مریضوں کو بھارت کے ہسپتالوں میں مفت علاج کے لئے لے جایا جاتا ہے ویزے کا طریقہ آسان بنایا گیا ہے جہازوں کے کرایوں میں سبسڈی دی گئی ہے سڑکیں بھارت کی بنائی ہوئی ہیں۔ سڑکوں پر بھارت کی 3ہزار بسیں چلتی ہیں جن پر بھارتی دوستی کے سٹیکر لگے ہوئے ہیں کابل اور جلال آباد میں گھریلو خواتین اور بچے بچیاں پشتو سے زیادہ اردو اور ہندی بولنا پسند کرتی ہیں ٹیلی وژن ڈراموں اور دیگر پروگراموں سے عوام نے اردو اور ہندی سیکھ لیا ہے پشتو میں بھی اردو اور ہندی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یہ ثقافتی اثرو ونفوذ ہے جو نرم زہر (Slow Poison)کی طرح افغان ملت کے خون میں داخل کیاگیا ہے افغانستان کی پشتو اور فارسی بولنے والی آبادی میں صرف شاگرد اپنے پاکستانی استاد کو پہچانتا ہے خونی رشتہ دار پاکستانی عزیز کو پہچانتا ہے عام افغانی ہرجگہ پاکستانی سے نفرت کرتا ہے بھارتی شہری کو دوست قرار دیتا ہے عموماً پاکستانیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ پاسپورٹ مت دکھاؤ ، خود کو بھارتی ظاہر کرو، تو مصیبت سے بچ جاؤگے، ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے خلاف مسلسل پروپبگینڈا چل رہا ہے۔ ہر برائی کی جڑ پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے دشمن نمبر ایک پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے ۔ ریڈیو ، ٹیلی وژن اور اخبار ات کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پاکستان کو دہشت گردوں کی نرسری اور برائی کی جڑ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تحقیق اور تجزیہ کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سارا کام ایک دن میں نہیں ہوا۔1980ء میں اس کی ابتدا ہوئی پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے 1980ء کی دہائی میں بہتر حکمت عملی اپنائی ۔ امریکہ کو اعتماد میں لیکر سویت یونین کی مدد سے افغانستان میں داخل ہوا نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین ، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے ادوار میں اپنے پاؤں جمالئے ۔برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی اور ملا عمر کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کئے۔حامد کرزی،اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ کے ساتھ دوستی نبھائی ۔پاکستانی قیادت نے 1980ء کی دہائی میں بھی غلط فیصلے کئے، جینوا معاہدے کے وقت بھی پاکستانی قیادت دوگرہوں میں بٹ گئی جینوا معاہدے کے بعد بھی پاکستانی قیاد ت نے افغانستان کے بارے میں غلط اندازے لگائے تحقیق اور تجزیے کا فقدان رہا، غلط سمت میں سفر کی بے شمار وجوہات تھیں نالائقی ، نااہلی اور بدعنوانی بھی ان وجوہات میں شامل تھیں ہم نے ذاتی مفاد کو سامنے رکھابھارت کی قیادت نے قومی مفاد کو سامنے رکھا اب ہمارے پاس ایک ہی آپشن ہے اور اس آپشن کا کوئی شارٹ کٹ (Short Cut)نہیں ہے اگلے 20سالوں کے لئے طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت افغانستان کے اندر، انفراسٹرکچر، تعلیم ، صحت اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں ایسی سرمایہ کاری کی جائے جیسی بھارت نے کی ہے الزامات اور جوابی الزامات کی سفارت کاری سے صورت حال میں کبھی بہتری نہیں آئے گی۔ بقول حسرت موہانی
ہے جہان مدفنِ شہید وفا
واں کبھی آپ کا گذر نہ ہوا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔