جس کھیت سے دھقان کو۔۔۔۔۔۔……..جس کھیت سے دھقان کو۔۔۔۔۔۔

……………پروفیسر رحمت کریم بیگ……….
آپ سب حضرات میری مراد خواتین و حضرات یہ بات مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ آج سے کوئی پچاس سال پہلے کے چترال کو اپنی زہن میں واپس لاکر آج کل کے چترال سے مقابلہ کریں تو پتہ چلے گا کہ آج ہماری ثقافت کتنی بدل چکی ہے؟ کھوار زبان کے اندر بڑی تبدیلی آگئی شادی بیاہ کے رسم و رواج بدل گئے ، زندگی کے معیار بدل گئے، سماجی تعلقات بدل گئے، مذہبی لحاظ سے بھی بہت تبدیلی اگئی۔ رسل و رسائل کا نظام بدل گیا، لوگوں کی سوچ بدل گئی، جدید تعلیم کی بدولت لوگوں کا طرز عمل،لباس، خوراک عرض کوئی بھی پہلو اپنی پرانی حالت پر نہیں رہی اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان بدل گیا بقول شاعر:
سورج نہ بدلا، چاند نہ بدلا
کتنا بدل گیا انسان
آج ہماری نئی نسل اتنا بدلا ہوا مخلوق ہے کہ آپ اس سے کسی بھی پرانی اقدار کی پابندی کی توقع نہیں رکھ سکتے، کوئی بھی اپنی ماضی کو اپنا کہنے کے لئے تیار نہیں، پرانے رشتوں کو جوڑنے کے لئے تیار نہیں ، اپنی نسلی تشخص کو ماننے کے لئے تیار نہیں، کوئی اپنی پرانی قومیت کو اپنا کہنے کے لئے امادہ نہیں ۔
آج کا نوجوان اپنے بود و باش، خورد و نوش، نشت و برخاست میں نئی راہیں نکال رہا ہے، نشے کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے، نشہ کے نئے نئے ذرائع نکالے جارہے ہیں ، ماحول بچوں کو ماں باپ سے بیگانہ کررہا ہے والدین کی نصیحت پر بچے سیخ پا ہو کر گھر چھوڑ کر جاتے سنے گئے ہیں بچیاں نصیحت کی تاب نہ لاکر خود کو دریا برد کررہی ہیں ، نوجوان نسل بے را ہ روی کی طرف روان ہے میر کاروان کوئی نہیں گھر کا سربراہ اپنی زمہ داریوں سے لاپرواہ ہے اس بارے میں کہوار کی یہ کہاوت خاصی وزن رکھتی ہے کہ دیوسو خیال بلاغونو سوری یعنی ایک بے غیرت شخص کا دھیان ہر وقت اپنے نسوار کے ڈبے کی طرف رہتا ہے اور اسے اپنی بیوی کو قابو رکھنے کا خیال نہیں آتا اسی طرح آج کل کے بڑے بھی اپنی زمہ داریوں سے لا پرواہی برت کر بچوں کی تربیت کا خیال نہیں رکھ رہے۔بچوں کی اور نوجوانوں کی تربیت میں کمی اس حد تک آگئی ہے کہ اُنہیں راستے میں جان پہچان والوں کو، بزرگوں کو، اساتذہ کو سلام کرنے کا خیال تک نہیں آتا اور حد یہ ہے کہ وہ اپنی اس لغزش کو محسوس بھی نہیں کرتا اور کوئی غلطی سرزد ہونے کے بعد اس کو غلطی ماننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا۔ آج کے نوجوان مفلر سے منہ اور ناک ڈھانپ کر صرف انکھوں کو دکھاتا ملتا ہے، اور لڑکیوں کی پردے کے فیشن میں آپ کو ملتا ہے اور ان کی شناخت مشکل ہوتی ہے جبکہ ثقافت کا دوسرا اُلٹا رُخ یہ ہے کہ لڑکیاں دوپٹے میں تھوڑا بھی پردہ کرنے کی بجائے سارا چہرہ ،گلا اور شاملات کھلا چھوڑ کر گھوم پھیر رہی ہیں اور دعوت نظارہ دیتی ہیں گویا ثقافت کا یہ پہلو اُلٹا ہو گیا ہے جن کو پردہ نہیں کرنا وہ پردہ کرتے ہیں اور جن کو پردہ کرنا ہے وہ نہیں کرتے۔ شمالی افریقہ میں ایسے قبائل بستے ہیں جن کی ثقافت بھی یہی ہے کہ ان کے تمام مرد پردہ کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بالکل پردہ نہیں کرتیں ، ہمارے ہاں بھی ثقافت اُلٹی چلنے لگی ہے، یہ بھی انتہا پسندی کا ایک رخ ہے کہ جس کو جیسا ہونا چاہئے وہ ایسا نہیں ہوتا اور جس کو جہاں نہیں ہونا چاہئے وہ وہاں ہوتا ہے اس طرح ہماری ثقافت کے کئی پہلو زوال پذیر ہیں ۔۔ کیوں نہ ہم بحیثیت چترال، بحیثیت کھو، اپنی ثقافتی اقدار کو عزیز رکھیں ، اپنی شناخت برقرار رکھیں اور اس کو نئے دور کی خرابیوں سے بچائیں اور چترالی ہونے کا ہمارا جو image بنا ہوا ہے اس کی نگہداری کریں، ہم نے اس ثقافت کو بچا کر اگلی نسل کو منتقل بھی کرنا ہے اور یہ ہمارا قومی فریضہ ہے۔ شکریہ

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔