داد بیداد …..پتھر کی لکیر 

فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر کے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کی جگہ پاکستان کا قانون فاٹا میں نافذ کرنے ،پولیس کا نظام اور عدلیہ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے کیلئے ایک بل گذشتہ دو سالوں سے زیر غور ہے بل کی تیاری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا مرحلہ آیا تو پیر 11 دسمبر کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں فاٹا بل لکھا گیا تھا یہ ایسا بل تھا جس پر ایم کیو ایم ،پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت پوری
اپو زیشن حکومت کے ساتھ متفق تھی پارلیمانی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوتا ہے یہ نادر مو قع فاٹا بل کے سلسلے میں آیا تھا مگر آخری وقت پر حکومت نے بل کو ایجنڈے سے نکال دیا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا ہے اور احتجاج کر رہی ہے تعطل کی سی صورت حال ہے سید خورشید شاہ ،
اسد عمر ،شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ بل اسمبلی میں نہ لایا گیا تو اجلاس کا بائیکاٹ جاری رہے گا ایسے مواقع پر لوگ نا دیدہ ہاتھ کا ذکر بھی کرتے ہیں سازش کا ذکر بھی کرتے ہیں مگر یہاں نظریہ سازش سے زیادہ ’’نظریہ ضرورت ‘‘کی کار فرمائی نظر آتی ہے فاٹا کے سلسلے میں ایک شراکت داری بھی چل رہی ہے اس کے حصہ دار یا سٹیک ہولڈر اپنی ضرورت کے مطابق حصہ ڈالتے ہیں ملک کے اندر کرپشن اور بد عنوانی سے مال بنانے والا طبقہ ایف سی آر کے قانون کا محافظ اور فاٹا کے موجودہ سسٹم کا شراکت دار ہے اسی طرح ملک سے باہر
دہشت گردی پھیلانے اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک فاٹا کے موجودہ سسٹم سے مزید فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی باقاعدہ شراکت دار ہیں اگر چہ بیرونی طاقتیں صاف نظرآتی ہیں پھر بھی ان کو نادیدہ ہاتھ کہا جاتا ہے وہ اپنے مقاصد کیلئے ڈالروں کے
جو انبارتقسیم کرتے ہیں وہ دستاویز میں نہیں آتی منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے بقول نظیر اکبر آبادی ’’یاں سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے ‘‘فاٹا جس طرح پاکستان کیلئے اہم ہے اسی طرح اُن کی بھی ضرورت ہے اگر فاٹا نہ ہوتا تو 1978 ء کے آغاز جہاد سے لیکر 2016 کے ردّ لفساد تک امریکہ ،بھارت ،افغانستان ،عرب ازبکستان اور چیچنیا سے آنے والے لوگ کہاں اپنے کیمپ قائم کرتے ؟ اس سوال پر تھوڑاسا غور کریں اور اس کو حیات آباد کی دیواروں کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے حیات اباد سے تھوڑے فاصلے پر فاٹا کی سرحد شروع ہوتی ہے حیات اباد میں جرم کی بڑی واردات کرنے والا مجرم فاٹا کی حدود میں داخل ہوجائے تو پولیس اس کو نہیں پکڑ سکتی یہ علاقہ امریکہ ،بھارت اور افغانستان کیلئے سونے کا انڈا دینے والی چڑیا کی طرح اہم ہے اس لئے فاٹا کے اندر فرنیٹر کر ائمز ریگولیشن سے فائدہ اٹھا نے والے ملکی اور غیر ملکی شراکت دار (Stakeholdars) اس کو فاٹا ہی رکھنے کے لئے سرمایہ لگا کر ’’فاٹا بل ‘‘ کے پاؤں میں زنجیر باندھ دیتے ہیں فاٹا بل در حقیقت د سمبر 2016ء میں تیار ہو کر اسمبلی میں پیش ہو نا چاہیے تھا دسمبر 2016ء سے دسمبر 2017ء تک اس کی تیاری میں رکاوٹیں ڈالی گئیں تو اس کی ٹھو س وجو ہات تھیں 11 دسمبر کے دن اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی نے برملا کہا کہ فاٹا پاکستان کا علاقہ نہیں اس کیلئے بل لانا غیر قانونی ہے یہ امریکہ ،بھارت اور افغانستا ن کا اصل موقف ہے جس کی گونج اب ہمارے پارلیمنٹ میں بھی سنائی دینے لگی ہے قومی اسمبلی میں حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے اور بھی اراکین ہیں جو مذکورہ موقف سے اتفاق کرتے ہیں اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی مخالفت کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف کو لال مسجد کے شہداء کی بد دعا لگ گئی تھی اگر اسی طریقے پر نواز شریف کے حوالے سے غور کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کو فاٹا کے مجبور اور معصوم عوام کی بد دعا لگ گئی جو گذشتہ دو سالوں سے اس انتظار میں ہیں کہ کب فاٹا اصلاحات پر عمل کرنے کا دن آئے گا اور کب ان کو ایف سی آر کے انگریزی قانون کے تحت ہونے والے ظلم سے نجات ملے گی جب ان کی دعائیں رنگ نہ لاسکیں تو انہوں نے بد دعا دی اور بد دعا فوراََ رنگ لے آئی موجودہ پارلیمنٹ کے سامنے یہ سنہرا مو قع ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک بل پر متفق ہیں اگر حزب اقتدار کے سات یا آٹھ اراکین ووٹ نہ دیں یا بائیکاٹ کریں تو کوئی فرق نہیں پڑ تا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے یہ موقع اس لئے بھی اہم ہے کہ صوبائی حکومت فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے سے اتفاق کرتی ہے اگر ایم ایم اے اگلے الیکشن میں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آگئی تو فاٹا کے انضمام کا معاملہ سرد خانے کی نذر ہو جائے گااور ایف سی آر کو ’’پتھر کی لکیر ‘‘کا درجہ حاصل ہو گا ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔