دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( سہت میں برف باری پر فسادات ایک خبر ہے  )   

…………تحریر : شمس الحق قمر ؔ

بونی بازار میں ایک جگہے پر لوگوں کا جم غفیر  تھا  ،ہاو ہو اور شور وغل ، ایسا لگتا تھا جیسے کوئی جنگ عظیم ہو رہی ہے ۔ میں ذرا قریب جا کر رکا ،  جنگ بندی ہو چکی تھی ۔ اب لوگوں کا ہجوم دو ٹولوں میں منقسم تھا ۔ میں دونوں دھڑوں کے اور بھی نزدیک  گیا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ  دو معمر لوگوں نے ایک دکان کے سامنے چھوٹی سی جگہے کو پانی پت کا میدان بنایا ہوا تھا ۔ آس پاس کے لوگوں نےاگرچہ  انہیں چھڑایاتھا لیکن اُن کے جذبات ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے  ۔ ایک دوسرے کوموٹی موٹی بے نقط سنا رہےتھے ۔ میں اُس وقت پہنچا تھا جب دونوں طرف سے جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا تاہم للکار نے ، ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ جاری تھا ۔ ایک کی پیشانی پر ہلکی سی خراش آئی تھی اور وہ قمیض کی دامن سے بار بار اپنی گھائل پیشانی صاف کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ  لگاتار گالیاں بھی سنائے جا رہا تھا جبکہ کچھ لوگ اُس کے ارد گرد ہالہ بنائے اُسے سمجھا رہے تھے اور وہ لولوگوں کی چنگل سے نکل کر اپنے حریف کی طرف لپکتا اور لوگ اُسے دوبارہ  پکڑتے، یوں یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہنے کے بعد لڑنے والے جری مجاہد کی قمیض  کے پھٹنے پر منتج ہوا۔

 ہوا یوں کہ لڑاکو(معمر) شخص کو بار بار لڑائی سے روکنے پر وہ  شدت ِجذبات میں آکر اپنی قمیض پھاڑ دی ۔  سرے بازار  اور دن دھاڑے کسی مرد کو  اپنے کپڑے اُتارتے ہوئے دیکھ کر اس لیےتعجب  ہو کہ یہ دن کا وقت تھا ۔  بہر حال میں دوسری طرف مڑگیا کیوں کہ  یہ منظر خطرے سے خالی نہیں تھا ۔ دوسری طرف بھی لوگوں کی ایک بھیڑ تھی یہاں بھی مد مقابل کچھ کم جذبات میں نہیں تھا ۔ اُس کا ستر بھی خالی تھا ۔ ایک ٹانگ ران تک شلوار سے عاری تھی لیکن اُس کی رہی سہی  عزت منت کشِ دامن ِ قمیض تھی ۔ اگر یہ بندہ مغربی لباس میں ہوتا یعنی قمیض لمی نہ ہوتی تو شلوار بے معنی تھی ۔ مجھے احساس ہوا کہ ہم اور ہماری آبادی کی بڑی تعداد شلوار کے ساتھ لمبی قمیض کیوں پہنتی ہے ۔

            لڑائی کا یہاں تک پہنچنا کہ ایک دوسرے کی شلوار کے ناڑے کے علاوہ   اور کچھ بھی سلامت نہ رہے  تو سوچنے اور  پھر پوچھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ آخر اس لڑائی کی وجہ کیا تھی ؟ کوئی بھی لڑائی اور  دنگہ  فساد یوں ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی پرانی رقابت یا اختلاف کار فرما ہوتا ہے ۔ لیکن پرانے حساب چکانے کے لئے لوگ بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔ اور موقع ملنے پر اپنا کوٹہ پورا کر لیتے ہیں۔ میں نے اس جنگ و جدل کے موقعے پر موجود چشم دید  گواہ سے  اس بے ہنگم لڑائی کے آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کا تقاضا کیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ آگ  آخر کیسے بھڑک اُٹھی تھی کہ جہاں دونوں فریق بےپر و بال ہو گئے ؟ عینی شاہد نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا’’بس چھوٹی سے بات پر یہ لوگ گتھم گتھا ہو گئے ۔ دونوں یہاں میرے ساتھ ہی بنچ پر بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے۔ پہلے شخص نے بولا :سنا ہے کہ کل موڑکہو سہت (موڑکہو سہت  جگہے کا نام ہے)میں برف باری ہوئی تھی ۔دوسرے نے کہا ، نہیں یہ خبر  من گھڑت ہے  کوئی برف باری  ورف باری نہیں ہوئی ہے یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں ۔ پہلے کو تھوڑا سے غصہ آیا اور بولے ، میں جھوٹ نہیں بولتا ہوں میں کل ہی وہاں سے ہو کے آیا ہوں ۔ دوسرے نے بولا ، ایسا سچ تو تم بہت بولتے ہو اللہ ایسا سچ مجھ سے نہ بلوائے  (مذکورہ  جملے میں مہمل لفط  ’’برف ورف ‘‘غالباً کسی پرانی رقابت کی طرف اشارہ تھا  )۔۔۔۔۔۔۔ یہی بات تھی کہ پہلے والے نے آستین چڑھا کر دوسرے کی پیٹھ پرزور سے مکا مارا ، دوسرا سیدھا منہ کے بل زمین پر گر پڑے اور کمانڈو ایکشن کرکے اُٹھا اور پہلے والے کو پیچھے سے  خوب کک ماری  پھر چیر نا ،پھاڑنا اور بے تُکے سنانا شروع ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے ۔‘‘     میں نے دوبارہ سوال کیا کہ  اتنی چھوٹی سی بات پر  لڑائی ؟ ہمارے ساتھ ایک اور سیانا بیٹھا ہوا تھا اُس نے ہنستے ہوئے کہا کہ   یہ در اصل لوگوں کے پرانے حساب کتاب ہوتے ہیں جو موقعہ آنے پر اس طرح سے چکاتے ہیں ۔ پھر ہنستے ہوئے بولے کہ جیسے یوسفی صاحب  کے ہاں کسی انسان کا کسی کتے کو کاٹنا خبر ہے تو ہمارے یہاں ’’سہت میں برف باری پر  فسادات ایک خبر ہے ۔‘‘

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔