دھڑکنوں کی زبان ’’میں زندگی پڑھاتا ہوں ‘‘

ٹیکسی گاڑی کی دوسری سیٹ پہ چار نوجوان بیٹھے ہوئے تھے ۔۔بالکل چار نوجوان تھے ۔۔ہاتھوں میں چار رنگی دھاگوں سے بنی موٹی تار ۔ایک کی درمیانی انگلی میں انگوٹھا۔۔بال لمبے لمبے ۔۔سر پہ عینک ۔۔دو کے کانوں میں ائیر فون ۔۔ دونوں ہاتھوں سے موبائل سے کھیلتے ہوئے ۔۔تنگ پتلوں شرٹ ۔۔داڑھی کااپنا سٹائل ۔۔دنیا و مافیہا سے بے خبر ۔۔خیالات کی پروآز اونچی اونچی ۔۔آپس میں رہ رہ کے گفت و شنید ہوتی ۔۔دلائل مگر کمزور سی ۔۔تبصیرے مگر تشنہ ۔۔معلومات مگر حقیقتوں سے پرے ۔۔ان کا موضوع پرانہ زمانہ رہا ۔۔پھر پرانے لوگ رہے ۔۔پھر تعلیم رہا ۔۔پھر پرانے اساتذہ اور نئے طریقہ تدریس پہ بحث شروع ہوئی ۔۔سارے مسافر خاموش ان کو سن رہے تھے ایک سر پھیرے مسافرنے کہا ۔۔’’بیٹا! پرانے اساتذہ کو کچھ نہ کہو یہ لوگ بہت پسماندگی میں نہایت تکلیف میں قوم کی خدمت کر تے رہے ہیں ۔۔یہ دیوانے لوگ بہت مخلص تھے ۔۔ان کو دنیا کی کوئی پرواہ نہ تھی ان کے سامنے ان کے شاگرد ہوتے تھے ۔۔وہ اگر سزا بھی دیتے تو بہی خواہی اس کے پیچھے تھی ‘‘۔۔یہ تبصیرہ بچوں کو بہت ناگوار گذرا۔۔کہا ماما!چھوڑو بھی ہم موجودہ زمانے کی بات کر رہے ہیں دور کے تقاضوں کی بات کر رہے ہیں ۔ وہ اس قابل نہیں ہیں ۔۔کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطا بق تعلیم دے سکیں ۔۔میں ان کا دوسرا ہمسایہ تھا ۔۔سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔ایک نے مجھ سے پوچھا ۔۔’’ماما ! آپ کیا کرتے ہیں ؟‘‘ میں نے کہا بیٹا ! استاد ہوں ۔۔اوف۔۔سکول میں کیاپڑھاتے ہو ‘‘۔۔بیٹا! زندگی پڑھاتا ہوں ۔۔۔اس جواب پہ وہ کھلکھلا کے ہنس پڑے ۔۔یہ بھی کوئی سبجیکٹ ہے کیا ؟۔۔ہاں بیٹا! یہی ایک سبجیکٹ ہے جس کو پرانے اساتذہ پڑھایا کرتے تھے ۔۔یہی ایک سبجیکٹ اصل تعلیم تھی اسی کی وجہ سے قومیں مہذب ہوتی تھیں ثقافتیں محفوظ ہوتی تھیں ۔۔تہذیبیں پنپتی تھیں ۔۔انسان نام کی مخلوق دنیا میں زندہ تھی ۔۔ماں باپ کے مرتبے متعین تھے ۔اساتذہ کا ایک نام تھا ۔۔ایک محبت ایک احترام کی ہوا چلتی تھی ۔۔اب اس سبجیکٹ کو کوئی پڑھاتا تک نہیں ۔۔نہ سکول میں نہ گھر میں ۔۔نہ گلی کوچوں میں نہ بازار میں ۔۔اس سبجیکٹ میں سب فیل ہوتے ہیں ۔۔میں سکول میں زندگی پڑھاتا ہوں ۔۔میں پڑھاتا ہوں بیٹا!کہ قومی لباس کی اہمیت کیا ہے ۔۔تہذیب کس چیز کا نام ہے۔ ثقافت کیا ہوتی ہے ۔۔ احترام کس معمے کو کہتے ہیں ۔۔پھر پڑھاتا ہوں بیٹا کہ بڑھوں اور چھوٹوں میں فاصلے کتنی ہونی چاہئے ۔۔ان کامقام کیا ہونا چاہئے ۔۔یہ بزرگ ۔۔یہ نوجوان ۔۔یہ بچہ ۔۔یہ خاتون ۔۔یہ بہن۔۔بھائی ۔۔یہ کس ڈرامے کے کردار ہیں ۔۔میں پڑھاتا ہوں بیٹا!۔۔کہ شرافت ایک ڈگری ہوتی ہے ۔۔انسانیت کی ایک تعریف ہوتی ہے ۔۔کردار کی ایک خوشبو ہوتی ہے ۔۔عزت نفس ایک سفید چادر کی مانند ہے یہ داغ دھبے کا حامل نہیں ہوتی ۔۔میں پڑھاتا ہوں بیٹا! کہ قوم کی پہچان فرد سے ہوتی ہے ۔۔فرد کی تربیت قوم کی تربیت ہے ۔۔میں انسانیت کا احترام پڑھاتا ہوں میں محبت اور خلوص پڑھاتا ہوں ۔۔میں درد اور سوز پڑھاتا ہوں ۔۔میں خدمت اور جذبہ پڑھاتا ہوں ۔۔میں محنت اور وقت پڑھاتا ہوں ۔۔میں مستقبل پڑھاتا ہوں ۔۔میں پڑھاتا ہوں کہ عظیم بننے کے لئے صرف کردار کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔اس میں پیسے عہدے کام نہیں آتے ۔۔میں پڑھاتا ہوں کہ تمہاری زندگی ایک پھول بن جائے اور تمہاری ہستی کی خوشبو سے صحرائے انسانیت معطر ہو جائے ۔۔میں پڑھاتا ہوں کہ تم اس معصوم بچے کی آنکھیں پڑھو جس میں پوری انسانیت کے لئے ایک پیغام ہے ۔۔میں پڑھاتا ہوں کہ آپنی ماؤں کی گودی کی خوشبو سونکھا کرو۔۔ میں پڑھاتا ہوں کہ اپنے باپ کے کندھوں کی سواری یاد رکھو ۔۔میں پڑھاتا ہوں کہ اپنی بہنوں کی محبت کے گیت گایا کرو ۔۔میں پڑھاتا ہوں کہ جوانی دیوانی ہے اپنا بچپن مت بھولا کرو ۔۔صحت انعام ہے اپنی بیماریاں یاد کیا کرو ۔۔بھوک امتحان ہے اس کو مت بھولا کرو ۔۔پیاس درد ہے پیاسوں کو ڈھونڈا کرو ۔۔جس کی جولی خالی ہے جس کی جیب میں کچھ نہیں ۔۔جس کی امیدیں اکارت جاتی ہیں ۔۔کوئی اُمید بر نہیں آتی ۔۔ان کو کندھا دو ۔۔یہی تمہاری تعلیم ہے اصل تعلیم ۔۔یہی پڑھاتا ہوں بیٹا!۔۔اگر یہ الفاظ کے گورکھ دھندے ہیں ۔تو میں معذرت چاہتا ہوں اگر یہ تعلیم ہے یہ زندگی ہے تو میں یہ پڑھاتا ہوں ۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔