کیاہم واقعی نظریے کو ووٹ دیتےہیں؟

نظریہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں فکرونظر، یا وہ مسئلہ جس میں فکرونظر سے کام لیا جائے ۔ نظرے کو اردو زبان میں دیکھنا، انگریزی میں تھیوری اور فارسی میں مشاہدہ کہاجاتا ہے۔ نظریہ سے مراد کسی بھی درپیش معاملے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں یا آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کے لئے اس کا سادہ اور کاغذی مثال نظریہ پاکستان یا دو قومی نظریہ ہے جس کے مطابق انڈین کانگریس کا یہ موقف تھا کہ ہندوستان میں ایک قوم کے لوگ رہتے ہیں اور وہ اسے ہندستانی کہتے ہیں اسلئے ہندوستان کی آزادی چائیے تقسیم نہیں جبکہ ال انڈیا مسلم لیگ کا موقف تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جن کے رہن سہن، عقائد، رسم و رواج نیز ہر لحاظ سے الگ ہیں لہذا ہندوستان کی تقسیم لازمی ہے۔ اور اسی نظریے کے تحت ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔

یہ پاکستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ روز اوّل سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جس ہستی کی سربراہی میں پاکستان بنا تھا اسے وقت سے پہلےاس جہان فانی کو چھوڑ جانا اور اس کے بعد 25 سال تک بغیر کسی دستور کے مُلک کو چلانا،ہمیں ایسے بے شمار مسائل میں مبتلا کئے جسکا تصورہر کوئی نہیں کرسکتا۔ البتہ وہ لوگ خون کے آنسو روتے ہونگے جنہوں نے اس تاریخ کو غیر جابنداری سے مطالعہ کئے اور تحریک پاکستان کے لئے دیئے جانے والے قربانیوں سے باخبر رہے۔ مگر کچھ بھی ہو ہمیں یہ حقیقت ماننا پڑے گا کہ ہم نے تمام نظریات کو اپنے ذاتی مفاد اور شخصی املاک کی تحفظ میں استعمال کئے۔ اور اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ نظریے کو سپورٹ کرتا ہے تو یقیناً وہ دھوکہ کرتا ہے۔ کیونکہ اس وقت ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں کوئی بھی نظریہ زندہ نہیں ہے۔ہم نے ذاتی مفاد کے تحفظ میں تمام نظریات کا ستیاناس کرکے رکھ دئیے۔ مگر وہ معصوم لوگ آج بھی ہمارے اس معاشرے میں موجود ہیں جو،اب بھی نظریے کو سپورٹ کرتےہیں اورنظرے کے نام پر ووٹ لیتے ہیں اور دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم بحیثیت معاشرہ طفیلیا بن چکے ہیں ۔

ہم اس ملک میں پائے جانے ولاے نظریات اور ان کے حامیوں کو بتاتے ہیں کہ نظریات کب اورکیسےختم ہوئے۔ سب سے پہلے نظریہ پاکستان کو لیتے ہیں ۔ نظریہ پاکستان کو ہم نے 16 دسمبر 1971ء کواپنے ہاتھوں سے قتل کئےاور نظریے کے نام پر بننے والے ریاست کو دولخت کئے۔اس کےبعد بھٹو صاحب اقتدارمیں آئے اور ملک کو آئین کے ساتھ ایک نظریہ بھی دیا جو سوشلزم سے کسی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔ مگر 1977ء میں بھٹوصاحب کی عدالتی قتل کے بعد وہ نظریہ مرنے لگا ، مگر 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹؤ کی شہادت نظریہ بھٹو کی تابوت میں آخری کیل کی صورت میں ٹھونکا گیا۔ مگر نعرہ اب بھی بھٹو کے نام کا لگ رہا ہے اور بے چارے کارکنان اب بھی مطمئن ہیں کہ وہ بھٹو کے جیالے ہیں اور ہر ظلم کے خلاف بھٹو کا نعرہ لگاتے رہیں گے،ان کی معصومیت پر ترس آتا ہے مگر رونا بھی !! ۔۔۔۔ ان جیالوں سے صرف اتنا گذارش ہے کہ زارداری کی قیادت میں بھٹوازم کا نعرہ لگانا بلکل ایسا ہی ہے، جیسا کہ یزید کی صف میں کھڑا ہو کر لبّیک یا حسین ؓ کا نعرہ !! ۔۔۔ جو کہ ممکن نہیں۔ کیونکہ یزید کی صف میں رہ کر امام حسینؓ کی حمایت نہیں ہو سکتی، اس کے لئے صف حسین ؓ میں آنا ہوگا چاہئے اس کے واسطے گردن کیون نہ کٹوانا پڑے۔۔۔۔۔ اس کے بعد مذہبی جماعتوں کا ذکر آتا ہے۔ جن کا نعرہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس اسلامی ریاست میں ہمارے مسائل کا حل اسلامی نظام میں پوشیدہ ہے۔ حالانکہ یہ ان مذہبی جماعتوں کوکون سمجھائے گا کہ قائداعظم کو 1947ء تک مذہبی جماعت کے سربراہاں کس نام سے پکارتے تھے اور پھر ایسے آدمی کی سربراہی میں وجود میں آنے والا ملک ۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اسلامی!!! ۔۔۔۔ مگر آج نظریے کے نام پر وہ نعرہ لگاتے ہیں۔

تحریک انصاف ہو یا عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ہو یا دیگر قوم پرست جماعتیں۔۔۔ سب کے سب ایک ہی لکیر کے فقیر ہیں۔ کوئی نظریہ ایسا نہیں ہے جس کے تحت قوم کو اکھٹا کیا جاسکے۔ ہر بندہ بدمعاش بنا بیٹھا ہے، سب اپنے لئے ایک لیول طے کر چکے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ مفاد پرستی اور شخصی املاک کی تحفظ میں سب لگے ہوئے ہیں۔

درحقیقت ہمارے معاشرے میں شخصیت پرستی کا رواج عام ہوگیا ہے۔شخصی املاک کی تحفظ اور ذاتی مفاد ہی ہمیں بے بیناد نظریات کے پیروکار بنا دیتے ہیں اور نوجوان نسل کو تاریخ سے بے خبر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بے چارہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو نعرہ لگایا جاتا ہے یہی حقیقت ہےکیونکہ بقول جون ایلیا “ہم پچھلے کئی سالوں سے تاریخ کی دستر خوان میں حرام خوری کےعلاوہ کچھ نہیں کئے” اور اسکا نقصان ہمیں آئے روز اٹھانا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے آنے والے نسل کو اپنی تاریخ سے اگاہ رکھنا نہایت ضروری ہے تاکہ جو غلطیاں ہم ماضی قریب میں کرچکے ہیں انہیں تجربے کے طور پر سامنے رکھ کر دوبارہ دہرانے سے بچ سکیں گے ، مگر مفاد پرستی کی لالچ نے ہمیں یہ سب کرنے سے منع کرتی ہے۔

مختصر یہ کہ ہم نظریے کے نام پر مسلسل دھوکہ کھارہےہیں۔​۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں کوئی نظریہ موجود نہیں ہے۔ بس ہمیں ذاتی مفاد اور شخصی املاک کی تحفط میں زندگی گذارنا ہے ۔ اسے فائدہ کسی کو ہو یا نہ ہو ، مگر کم ازکم مایوسی سے بچ جائیں گے۔ کیونکہ ہم نظریے کے نام پرووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور نتیجہ ہمیشہ الٹا ہی نکلتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔