خواتین پر تشدد پر پی پی اے ایف کی 16 روزہ بین الاقوامی مہم اختتام پذیر

اسلام آباد،(چترال ایکسپریس) پاکستان پاورٹی ایلیوئیشن فنڈ (پی پی اے ایف) نے صنفی تشدد کے خلاف جاری 16 روزہ مہم کے اختتام پر خصوصی تقریب میں پائیدار ترقی کے ہدف 5 کو آگے بڑھانے کے لئے مکالمے کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں مختلف اداروں کے ماہرین شریک ہوئے اور اس بات پر غور کیا گیا کہ پاکستان میں پائیدار ترقی کے ہدف 5 جو کہ صنفی مساوات اور خواتین و لڑکیوں کو بااختیار بناتا ہے ، اسے کس طرح آگے بڑھانا ہے ۔
پی پی اے ایف گزشتہ چار سال سے 16 روزہ خصوصی مہم کا انعقاد کر رہا ہے۔ اس ضمن میں ادارے کی جانب سے خواتین و لڑکیوں پر تشدد کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں آگہی بڑھانے، صنفی مساوات کو فروغ دینے اور لوگوں کے ساتھ اظہار خیال سے متعلق مختلف اقدامات کئے جاتے ہیں۔
مکالمے میں پی پی اے ایف کی سینئر ہیڈ گرانٹس و آپریشنز سیمی کمال، فارمرز ڈیولپمنٹ آرگنائیزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر غلام مصطفیٰ، یونیسیف کی چائلڈ پروٹیکشن اسپیشلسٹ مقدسہ مہرین اور پی ٹی وی ہوم کے آئی ٹی منیجر اظہر حفیظ موجود تھے۔
فارمرز ڈیولپمنٹ آرگنائیزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر غلام مصطفیٰ نے کہا، “صنفی مساوات کو یقینی اور اس سے متعلق آگہی بڑھانے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں خانگی تشدد کے خلاف قوانین کی منظوری پر قانون سازوں کو سراہتا ہوں لیکن اسکے ساتھ ہمیں اس بل پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ ”
یونیسیف میں چائلڈ پروٹیکشن اسپیشلسٹ مقدسہ مہرین نے سال 2015 کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کو انکے کام کا معاوضہ نہیں ملتا اوراسکی مالیت 10 کھرب ڈالر ہے۔ رپورٹ میں ایسی خواتین کی نشاندہی کا مطالبہ کیا گیا جنہیں معاوضہ کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستان میں 78 فیصد خواتین معاشی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے حکومت اور فلاحی اداروں پر زور دیا کہ وہ خواتین کی بااختیاری کے لئے معاشی مواقع پرسرمایہ کاری کریں اور ملک بھر میں خواتین کے لئے مزید ووکیشنل ٹریننگ مراکز قائم کریں۔
پی پی اے ایف کی سینئر ہیڈ گرانٹس و آپریشنز سیمی کمال نے اس بات کو اُجاگر کیا کہ پاکستان کے تمام صوبوں نے خواتین کے تحفظ کے لئے قوانین تیار یا منظور نہیں کئے۔ انہوں نے قانون سازوں سے اپیل کی کہ قوانین کو فعال بنانے اور اس میں اپنے تعاون کے لئے ضروری کردار ادا کریں۔
پی ٹی وی کے آئی ٹی منیجر اظہر حفیظ نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی شراکت کا آغاز اپنے گھر سے ہوتا ہے۔ اگر ہماری بیٹیاں، بہنیں اور بیگمات کو بھی اسی طرح کے مواقع فراہم کئے جائیں جیسے لڑکوں اور مردوں کو حاصل ہوتے ہیں اور اگر لڑکوں اور لڑکیوں کو مساوی نظر سے دیکھا جائے تو اس سے لوگ کافی زیادہ متوازن ہوں گے اور وہ روایتی صنفی لڑائی سے بہتر طور پر نپٹ سکیں گے جس کے بدلے میں مستقبل کی نسلیں زیادہ بااختیار ہوں گی۔
پی پی اے ایف کے چیف ایگزیکٹو قاضی عظمت عیسیٰ نے عالمی صورتحال اور پاکستان میں حالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، “ہیومن رائٹس واچ کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں کم از کم 70 فیصد خواتین کو پٹائی کا سامنا رہتا ہے۔ خانگی تشدد کے باعث سالانہ 5 ہزار سے زائد خواتین قتل ہوجاتی ہیں۔ عالمی سطح پر ہر تین میں سے ایک خاتون کو تشدد کا سامنا ہے۔ دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں میں صرف 25 خواتین سی ای او ہیں۔ پاکستان میں صرف دو خواتین اس عہدے پر کام کررہی ہیں۔ لڑکیوں کو اسکول سے اُٹھالیا جاتا ہے اور کم عمری میں انہیں شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو نقصان دہ قوانین، رواج اور طریقوں کے ذریعے روکا جاتا ہے جن میں خواتین و لڑکیوں کا غیرت کے نام پر قتل نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “انہی وجوہات کی وجہ سے ہم بطور قوم ترقی نہیں کرپائے ہیں۔ ملک میں خواتین سے بدسلوکی عام ہے ،ہم نے انسانی سرمائے پر بہت ہی کم سرمایہ کاری کی ہے۔ ہمارا معاشرہ متوازن نہیں ہے اور ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ غیرمنصفانہ معاشرہ زیادہ عرصے تک نہیں چلتا۔ میں ایسا پاکستان تصور کرتا ہوں جہاں خواتین اور لڑکیاں خوف سے آزاد ہوں، آزادی سے زندگی گزاریں اور اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کریں۔ میں آپ سب کو اپنی اقدار کی عزم نو کیلئے مدعو کرتا ہوں اور اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ ہم ایسے ہی مستقبل کے لئے کام کریں گے۔ ”
پی پی اے ایف خواتین کی بااختیاری کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فعال شرکت کرکے ترقیاتی عمل میں شامل ہے۔ وہ پاکستان بھر کے 130 اضلاع میں اپنی شراکتی تنظیموں کے ذریعے خواتین کی مساوی شمولیت پر کام کررہا ہے۔ پی پی اے ایف اپنے پروگرامز اور آپریشنز میں خواتین کی بااختیاری اور نمائندگی میں بہتری لانے کے لئے پرعزم ہے۔ پی پی اے ایف اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ صنفی خلا کو نہ صرف ان علاقوں میں بھرا جاسکتا ہے جہاں وہ کام کررہا ہے بلکہ اپنی شراکتی تنظیموں کے ذریعے شعوری طور پر شمولیت، فعال شرکت اور ادارے میں خواتین کی قیادت کے ساتھ بھی یہ خلا پْر کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ صنفی بنیادوں پر تشدد کے خلاف 25 نومبر کو خواتین پر تشدد کے خاتمہ کے عالمی دن سے لیکر 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن تک 16 روزہ بین الاقوامی مہم کے سلسلے میں مختلف سرگرمیاں کی جاتی ہیں۔ اس بین الاقوامی مہم کا آغاز سال 1991 میں سینٹر فار ویمن گلوبل لیڈرشپ کے تعاون سے پہلی بار ویمن گلوبل لیڈرشپ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کیا گیا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔