صوبائی سیٹ کا خاتمہ

…….تحریر : محکم الدین ایونی …..

چترال کی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست دوسری بار ختم کی گئی ہے ۔ اس سے قبل 1988میں بھی یہ سیٹ ختم کیا گیا تھا ۔ جسے بڑی جدوجہد کے بعد میں بحال کر دیا گیا تھا۔ بظاہر دیکھا جائے ۔ تو الیکشن کمیشن نے ایک طے شدہ فارمولے تحت کام کیا ہے ۔ جس میں پاکستان کی کل آبادی کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی مجموعی نشستوں پر تقسیم کرنے کے نتیجے میں آبادی کم ہونے پر چترال کو اپنی ایک صوبائی سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑا ہے ، جبکہ اسی فارمولے کے استعمال سے بعض اضلاع کو اضافی سیٹ بھی مل گئے ہیں ۔ چترال جو حال ہی میں دو اضلاع میں تقسیم و چکا ہے ۔ میں سے کسی بھی ضلع کیلئے ایک سیٹ سے محروم ہونا بہت بڑا دھچکا ہے ۔بلکہ ضلع کو پتھر کے زمانے کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے ۔ لوگ اس بات پر حیران ہیں ۔ کہ ایک طرف آبادی میں روز افزون اضافہ ہو رہا ہے ۔ مقامی لوگوں کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں دوسرے علاقوں سے کاروبای لوگ اور ملازمین کی ایک جم غفیر لوئر چترال اور اپر چترال میں رہائش پذیر ہیں ۔ اموات کی نسبت پیدائش کا تناسب بھی بہت زیادہ ہے اس کے باوجود چترال کے دونوں اضلاع کی آبادی بڑھنے کی بجائے کیسے گھٹ چکی ہے ؟ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق لوئر اور اپر چترال کی کل آبادی چار لاکھ سینتالیس ہزار تین سو باون ( 447352 (قرار دی گئی ہے ۔ اس لئے دونوں میں مشترک قومی اسمبلی کی نشست مشکل سے ختم ہونے سے بچ گئی ہے ۔ لیکن دو صوبائی سیٹوں کیلئے یہ آبادی بالکل ناکافی قرار دے کر ایک نشست ختم کر دی گئی ہے ۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے ۔ کہ یہاں جو بھی علاقے پسماندہ اور حکومتی توجہ کے زیادہ محتاج ہیں ۔ اُن کو مزید پسماندہ رکھنے کیلئے قوانین پاس کئے جاتے ہیں ۔ اُن کی پسماندگی پر کوئی رحم نہیں کھاتا۔ اور بہتری کیلئے اقدامات نہیں کئے جاتے ۔ جس کا ثبوت یہ ہے ۔ کہ چترال کے دونوں اضلاع کا مجموعی رقبہ خیبر پختونخوا کے کل رقبے کا پانچواں حصہ ہے ۔ 14850مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہونے کے ساتھ ساتھ جغرافیائی طور پر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ملک کے آبی وسائل کے سب سے بڑے ذخیرے گلیشیرز کی صورت میں یہاں موجود ہیں ۔ 600چھوٹے بڑے قصبات پر مشتمل ہے ۔ لوئر چترال کے گاؤں ارندو سے اپر چترال کے آخری گاؤں بروغل تک کا فاصلہ 380کلومیٹر ہے۔ جو کہ چترال سے پشاور کے فاصلے کے برابر ہے ۔ سڑکیں کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں ۔ زیادہ تر سڑکیں مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت مرمت کرتے ہیں ۔ دونوں اضلاع کے طول و عرض میں لوگوں کوپینے کے صاف پانی ، تعلیم و صحت اور روزگار کے مسائل درپیش ہیں ۔ حکومت کی طرف سے ترقیاتی مد میں ملنے والی فنڈ رقبے کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے ۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے ۔ کہ صوبے کے سب سے بڑے رقبے اور پسماندگی کی بنیاد پر ان کو مناسب فنڈ دیے جاتے ۔ تاکہ ان کی مشکلات میں کچھ کمی آجاتی ۔ لیکن اب تو ان کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا گیا ہے ۔ ایک ایم پی اے کی سیٹ ختم کی گئی ہے ۔ اور لوگ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ ختم کی جانے والی سیٹ اپر کی ہے یا لوئر چترال کی ۔ تاہم یہ بات واضح ہے ۔ کہ جو بھی سیٹ ختم ہوگی ۔ اُس سے نقصان چترال والوں کو ہی ہو گا ۔ چاہے وہ اپرچترال کے ہوں یا لوئر چترال کے بد قسمتی سے چترال کے دونوں اضلاع گذشتہ کئی سالوں سے آفات کا شکار ہیں ۔ ترقیاتی فنڈ کا تو تصور ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ ترقی اُسے کہی جا سکتی ہے ۔ جہاں نئے پراجیکٹ تعمیر ہوں ۔یہاں 2010سے 2017 تک سات سالوں میں سیلاب اور زلزلے سے تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی بحالی بھی نہیں ہوئی ۔ اور ابھی تک کھنڈرات اُسی طرح پڑے ہیں ۔ ایسے حالات میں کسی بھی ضلع کی صوبائی اسمبلی کا سیٹ کھو جانا لوگوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ اور دونوں اضلاع کی سیاست ، معیشت اور ترقی کی موت ہے ۔ جسے اگر کسی میں جان نہیں ہے ۔ تو خوشدلی سے قبول کرے ۔ فرض کریں کہ چترال کے ایک ضلع کی آبادی الیکشن کمیشن کے موجودہ فارمولے پر پوری نہیں اُترتی ۔ تو فنڈ کی فراہمی میں حکومتی امتیازی سلوک ، پسماندگی ، دور آفتادگی ، کھنڈر سڑکوں ، تعلیم و صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی اور روزگار کے مواقع سے محرومی کے باوجود بھی اس سیٹ کی بحالی کا حقدار نہیں ہے ؟ ۔
دونوں ضلعوں کی سیاسی قیادت کو چاہیے ، کہ اس حوالے سے جاندار مشترکہ لائحہ عمل کے تحت اقدامات اُٹھائیں ۔ تاکہ ہر صورت اس سیٹ کی بحالی ممکن ہو ۔ بصورت دیگر الیکشن چی معنی دارد ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔