لولی پاپ نہیں ریلیف چاہئے

…………محمد شریف شکیب………..
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے13جنوری کو چترال میں گولین گول ہائیڈل پاور پلانٹ سے بجلی کی سپلائی کا افتتاح کرنا تھا۔تاہم وزیراعظم کادورہ ان کی ناگزیر مصروفیات کی وجہ سے ملتوی کردیاگیا۔108 میگاواٹ پیداواری گنجائش کے گولین گول بجلی گھر سے اکتوبر2017میں پیداوار شروع ہونے کا تحمینہ تھا۔ سولہ ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے اس بجلی گھر کی تعمیر کا ٹھیکہ لواری ٹنل بنانے والی کوریائی تعمیراتی کمپنی سامبو کو دیا گیا تھا۔منصوبے کے نقشے کی تیاری اور پی سی ون پر کام 2009میں شروع ہوا تھا۔ گولین گول پاور ہاوس کے لئے سعودی فنڈ، کویت فنڈ اور اوپیک فنڈ نے مالی امداد فراہم کی ہے۔ جنوری 2011میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ سات سال میں مکمل ہونا تھا۔گولین گول کی بجلی کو مین ٹرانسمیشن لائن کے ساتھ ملانے کے انتظامات بھی مکمل ہوچکے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے 2015میں کوراغ اور2016میں پولو گراونڈ چترال میں عوامی اجتماعات سے خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ گولین گول پاور پراجیکٹ سے 30میگاواٹ بجلی چترال کو فراہم کی جائے گی۔لیکن واپڈا کا موقف ہے کہ ریشن پاور ہاوس کی چار میگاواٹ بجلی کے لئے بچھائی گئی ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے تیس میگاواٹ کی بجلی سپلائی نہیں کی جاسکتی۔ واپڈا، پیڈو اور پیسکو کے درمیان اس حوالے سے مذاکرات کے کئی دور بھی ہوچکے ہیں۔ چند روز قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی گولین گول بجلی گھر سے اپر اور لوئر چترال کو بجلی کی فراہمی کو بھی قابل عمل قرار دیا تھا۔ وزیراعظم، وفاقی وزیر پانی و بجلی، ایم این اے اور واپڈا کی طرف سے بھی چترال کو گولین گول سے بجلی کی فراہمی کے وعدوں کے باوجود فنی وجوہات کی آڑ میں اپر چترال کے پورے ضلع کو بجلی کی سہولت سے محروم رکھے جانے کا خدشہ موجود ہے ۔اسی خدشے کے پیش نظر تحریک حقوق چترال کے زیراہتمام گذشتہ روز ضلعی ہیڈ کوارٹر بونی میں احتجاجی جلسہ ہوا۔ جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے مقامی قائدین، منتخب نمائندوں اور علاقے کے عمائدین نے شرکت کی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ گولین گول سے اپرچترال کو بجلی فراہم نہ کرنے کی صورت میں پاور پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب نہیں ہونے دی جائے گی۔2015کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے پورے چترال کو بجلی فراہم کرنے والا ریشن بجلی گھر تباہ ہوگیا تھا۔ ڈھائی سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود ریشن بجلی گھر کی بحالی کے لئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اُٹھایاگیا۔ جس کی وجہ سے ساڑھے آٹھ ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا اورتین لاکھ کی آبادی کا علاقہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ کچھ لوگ شمسی توانائی کے چھوٹے یونٹ لگاکر اپنی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ اکثریتی آبادی اب بھی اپنے گھروں کو روشن اور گرم رکھنے کے لئے لکڑی کے استعمال پر مجبور ہے اور سوختنی لکڑی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے درختوں کی بے دریغ کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے پہاڑ کے اندر سرنگ اور ڈیم بناکر ریشن کا بجلی گھر تعمیر کیا گیا تھا۔ پاور ہاوس سیلاب کی نذر ہونے کی وجہ سے بھاری مشینیں آج بھی ملبے میں دھنسی ہوئی نظر آتی ہیں اور ارباب اختیار و اقتدار کی غفلت اور لاپرواہی پر نوحہ کناں ہیں۔یہ عجیب منطق ہے کہ میرے گھر کے صحن میں میرے اپنے وسائل استعمال کرکے بجلی گھر بنایا جاتا ہے۔جب پیدوار شروع ہوتی ہے تو میرے گھر کو نظر انداز کیاجاتا ہے۔اپنے شہری حقوق سے باخبر کوئی انسان یہ زیادتی برداشت نہیں کرسکتا۔اگر اپرچترال کے عوامی نمائندے بجلی فراہم نہ کرنے کی صورت میں اپنے بال بچوں سمیت سڑکوں پر آنے اور کھمبے اکھاڑ کر دریائے چترال میں بہانے کی باتیں کر رہے ہیں تو ان کا موقف حق بجانب ہے۔85فیصد شرح خواندگی والے علاقے کے لوگوں کو لالی پاپ دے کر زیادہ عرصہ نہیں بہلایاجاسکتا۔اپرچترال کے عوام تیس مہینوں سے بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ صوبائی حکومت نے بالائی چترال کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان تو کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کی صوبائی نشست ختم کردی گئی۔ان زیادتیوں پر عوام احتجاج بھی نہ کریں تو پھر کیا کریں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے لئے پہاڑوں کے دامن میںآباد یہ علاقہ اگرچہ سیاسی لحاظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ مگر دفاعی لحاظ سے یہ انتہائی اہم علاقہ ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ سٹرٹیجک اہمیت کے اس علاقے پر وفاقی اور صوبائی حکومت خصوصی توجہ دے۔اور وہاں کے لوگوں میں پایا جانے والا احساس محرومی دور کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔