داد بیداد…..سابقہ حکومت

ایک واہمہ سا ہے جو سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچا ہے کہتے ہیں کہ کسی کی غیبت کی جارہی ہو تو اُس کے کان گرم ہوجاتے ہیں اگر یہ واہمہ سچ مُچ درست ہے تو پھر ’’ سابقہ حکومت ‘‘ کے کانوں کو ایک لمحے کے لئے بھی ٹھنڈک نصیب نہیں ہوگی گذشتہ 40سالوں سے ہر وزیر ، ہر لیڈر، ہر وزیر اعظم ، ہروزیر اعلیٰ اور ہر گورنر یہی کہتا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا قوم کا ستیا ناس کردیا دانیال عزیز اور شیخ رشید کے بیانات پڑھ لیں شاہ محمود قریشی ، پرویز خٹک ، امیر مقام اور مولانا فضل الرحمن کی تقریریں سن لیجئے سراج الحق ، شہباز شریف اور محمود خان اچکزئی کے بیانات پر غور فرمائیے میرے پاس ملک کے 113لیڈروں کے دو ہزار تازہ بیانات ہیں جن میں سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور سابقہ حکومتیں وہی ہیں جن میں یہ سارے لیڈر وزارتوں پر براجماں تھے اور ’’ موجودہ حکومت‘‘ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے میرے ریکارڈ میں 88لیڈروں کے دو بیانات ہیں ایک بیان میں وہ پیپلز پارٹی کی تعریف کرتے ہیں دوسرے بیان میں مسلم لیگ کی خوبیاں بیان کرتے ہیں ایک بیان میں انہوں نے جنرل ضیاء الحق یا پرویز مشرف کو قوم کا نجات دہندہ ثابت کیا ہے دوسرے بیان میں ان کو ڈکٹیٹر اور تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیا ہے ’’ جنابِ شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی‘‘ 5جولائی 1977ء کو ہماری ٹیم کارکن صحافیوں پر مشتمل تھی رات 12بجے تک اخبار کے دفتر میں گذر جاتی تھی اس رات 12بجے تک شہ سرخی نہیں ملی جب شہ سرخی ملی تو پتہ چلا کہ ادارتی صفحے پر بھٹو کو تیسری دنیا کا عظیم لیڈر اور فخر ایشیاء ثابت کرنے پر زور قلم صرف کیا گیا ہے حالانکہ صبح کا سورج مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کا نام لیکر طلوع ہونے والا تھا چنانچہ 5جولائی کے بعض اخبارات میں اداریہ والا صفحہ سفید کاغذ کی صورت میں شائع ہوا بعض اخبارات نے راتوں رات اپنا قبلہ درست کرلیا اور نیا اداریہ شائع کیا ایک ہی قومی اخبار ایسا تھا جس کا ادارتی صفحہ کسی تبدیلی کے بغیر ہو بہو چھپ کر آیاچیف ایڈیٹر نے اگلے روز ڈیسک والوں کو چائے پلائی اور داد بھی دی، اس اخبار میں بھٹو اور پیپلز پارٹی کے لئے ’’موجودہ حکومت‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے جو 5جولائی کے دن بھٹو کو مری میں نظر بندی کرنے کے بعد آنے والی حکومت پر حرف بحرف درست لگتے تھے جو تعریف 4جولائی والی موجودہ حکومت کی ہورہی تھی وہی تعریف 5جولائی والی ’’ موجودہ حکومت ‘‘ کے لئے بھی قابل قبول تھی تحقیق سے ثابت ہوا کہ چیف ایڈیٹر نے 4دن پہلے کارکن صحافیوں کو زبانی بتا دیا تھا کہ فخر ایشاء کا نام لینا بند کرو پیپلز پارٹی کا نام لینا بند کردو زمین آسمان کے قلابے ملاکر تعریف کرنی ہو تو ’’ موجودہ حکومت‘‘ لکھو یہ سدا بہار ترکیب ہے موجودہ حکومت نہ رہی تب بھی کام آئے گی اور شرمندگی سے بچائے گی اس کا نام ہے ’’ نسخہ ہائے وفا بنام چمچہ گان قدیم‘‘ گذشتہ سال سلطنت شریفیہ کی جگہ خلافت عباسیہ نے لے لی تو بعض اخبارات کو باقاعدہ اپنا قبلہ تبدیل کرنا پڑا تاہم دو چار اخبارات ایسے بھی ہیں جنہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑا یہ وہی ترکیب استعمال کرتے ہیں سیاسی لیڈروں میں مجھے شیخ رشید اور امیر مقام پسند ہیں دونوں کی یہ عادت اچھی ہے کہ سابقہ حکومت کی برائیاں بیان کرتے وقت ان کو پسینہ آجاتا ہے اور بقیہ بیان پسینہ پونچھنے کے بعد جاری رکھتے ہیں یہ ضمیر کے زندہ ہونے کی نشانی ہے ورنہ ایسے لیڈروں کی کمی نہیں جو ہر سابقہ حکومت کے حواریوں میں شامل ہوکر فوائدسمیٹتے رہے اور ’’موجودہ حکومت‘‘ میں شامل ہوتے ہی اپنی عینک ایسی تبدیل کی کہ سارے کیڑے سابقہ حکومت میں نظر آنے لگے ہمارے دوست سید شمس النظر شاہ فاطمی نے ایسے لیڈروں کے لئے ’’موجودہ حکومت‘‘ کی طرح ایک سدا بہار سوال تیا ر کرلیا ہے سوال یہ ہے کہ ’’ وہ کونسی سابقہ حکومت تھی جس میں تم حصہ دار نہیں تھے؟‘‘ یہ سکہ بند سوال ہر ایسے لیڈر سے با آسانی پوچھا جاسکتا ہے جو سارے مسائل کا الزام سابقہ حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتا ہے ایسے لیڈروں کے لئے مرزا غالب کی غزل کا یہ شعر بھی برمحل لگتا ہے
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔