زندہ قوم کے مفاد پرست رہنما 

یہ باجوڑ خار کا واقعہ  ہے جہاں عصر کے بعد گراونڈ میں کھیل کود مغرب  تک جاری  رہتا ہے ۔عصر کی نماز پڑھ کر لوگ مسجد سے باہر آرہے تھے۔ گراونڈ میں کرکٹ میچ چل رہا تھا ، مشیران تماشا دیکھ رہے تھے اس دوران بندوق فائز  کی آواز سنی گئی اور کچھ ہی دیر بعد چند  لڑکوں نے ایک بہت بڑا اور نایاب نسل کی پرندے کو زخمی حالت میں اٹھا کر گراونڈ  میں آئے ۔ میچ کھیلنے اور دیکھنے والے سب پرندے کے گرد جمع ہوئے اور ایک بحث شروع ہوئی۔ مسلۂ یہ تھا کہ پرندہ نایاب نسل کی تھی اور شکاری اسے پہچاننے  سے قاصر تھے کہ آیا یہ   حلال ہے یا حرام! اس دوران کسی نے کہا کہ مولوی صاحب کے پاس لے جاتے ہیں ، اسے صحیح علم ہوگا۔ تمام لوگ شکار کو اٹھا کر مسجد کی طرف چل پڑے کیونکہ یہ مسلۂ اب شکاری کا نہیں رہا  بلکہ معاشرتی مسلۂ بن گیا تھا۔جیسے ہی مسجد جانے کا فیصلہ ہوا تو بچوں نے سب سے پہلے وہاں پہنچ (ایسے موقعوں پر بچے ہمیشہ جلد بازی کرتے ہیں ) کر مولوی صاحب کو باہر بُلا لیئے اور مولوی صاحب نے پرندے کو دیکھ کر فورا کہا کہ یہ پرندہ حرام ہے، نوجوانوں میں مایوسی سی پھیل گئی کیونکہ اکثر نوجوان ہی شکار  کے شوقین ہوتے ہیں۔  خاموشی پھیل گئی تھی کہ کسی نے کہا کہ مولوی صاحب یہ شکار مثل خان (مولوی صاحب کا چھوٹا بیٹا) نے کیا تھا تو فورا مولوی پچتاوے  کا شکار ہوا کہ اس نے جلد بازی کیوں کی جو بھی تھا پکنا تو اسی کی کڑاہی میں تھا۔ خیر کیا کریں، کوئی حل نکالتے ہیں یہ سوچ کر مولوی صاحب داڑھی کھجاتے ہوئے پوچھا کہ شکار کب یعنی کہ کس وقت ہوا تھا تو جواب آیا کہ ابھی عصر کے بعد  ہی ہوا ہے تو صاحب نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ عصر اور مغرب کے درمیان اس پرندے کا شکار جائز ہے میں نے وقت نہیں دیکھا تھا۔ لہذا شکار اگر عصر اور مغرب کے درمیانی وقفے میں ہوا ہے تو حلال ہے ورنہ حرام۔ اسطرح بچے تالیاں بجاتے ہوئے خوشی کا اظہار کرکے گراونڈ میں واپس چلے گئے اور مشیران سب کچھ سمجھ گئے مگر لاج رکھنے پر مجبور ہوئے۔

گو کہ بظاہر یہ ایک واقعہ ہے مگر حقیقت میں یہ آج بھی ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے کہ معاشرتی سوچ ختم ہو کر کسطرح ذات تک محدود ہو گئی ہے۔ پچھلے دنوں پشاور میں چترال کی سیاسی نمائندہ گان ایک بینر اٹھائے پریس کلب کے باہر نظر آئے، بینر میں درج تھا کہ

“چترال کی سیٹوں میں کمی ۔۔۔۔۔۔ نا منظور

موجودہ مردوم شماری ۔ نامنظور۔نامنظور۔نامنظور۔۔۔۔ اہلیان چترال۔۔۔”

محترم سیاسی نمائندہ گان کی کاوشوں کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ہمیں خوشی بھی محسوس ہوتی ہے کہ جب تک ہمارے قائدین زندہ و تابندہ ہیں ہمارے حقوق پر کوئی آنچ نہیں آوے گی ۔وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر ہی اٹھا تے ہیں تاکہ کوئی ان کی وجہ سے انکی اس بیدار اور زندہ قوم کا مذاق نہ اڑا لے  جس کی وہ ہر فورم پر نمائندگی کررہے ہیں۔ مگر۔۔۔۔۔ جناب عالی ہمیں افسوس اس وقت ہوتی ہے جب آپ اجتماعی مفادات  پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ حرکت بحیثیت قومی نمائندہ آپ لوگوں کو بلکل بھی زیب نہیں دیتی اور ایسے مواقع پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں جو آپ کو لاجواب کر دیں گےاور زندہ قوموں کو دکھ ہوتی ہے جب ان کے نمائندے لاجواب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر مردم شماری نا منظور ہی تھا تو آپ لوگ ابھی تک کیا خاک چھان رہے تھے ، مردوم شماری کے نتائج کا اعلان چھ مہینہ پہلے ہو چکی  تھی اور اس وقت کسی نے آواز نہیں اٹھایا  کیونکہ بقول آپ لوگوں کے، چترال کی آبادی کو کم دیکھایا گیا تھا جو کہ کرپشن  اور  خیانت ہے ۔ مگر آپ لوگوں نے کوئی آواز  نہیں اٹھا ئے، کوئی احتجاج نہیں بلائے کیونکہ تم لوگوں کو فکر صرف ذاتی مفادات کی ہوتی ہے اجتمائی مفادات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ مگر جب آبادی کو بنیاد بنا کر حکومت نے سیٹوںمیں کٹوتی کئے تو آپ لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب آپ کی سیٹ ،جس پر آپ لوگ براجمان ہونے کے لئے قسمت آزمائی کرتے رہتے ہو، خطرے میں ہے تو آپ اہلیان چترال کی طرف سے احتجاج کرنے پریس کلب پہنچ گئے۔ جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر سوچ قومی نوعیت کی ہوتی تو یقیناً آپ لوگ وقت پر حرکت میں آتے مگر آپ کو ذاتی مفادات کی ہی فکر رہتی ہے۔ جو کہ مایوس کن اقدام ہے۔ ہمارے حقوق آئے روز پامال ہوتے رہتے ہیں اور آپ لوگ اس وقت تک آواز نہیں اٹھا تے جب تک آپ کو ذاتی فائدہ یا مفاد نظر نہ آئے۔ اور ایک معصومانہ سوال پوچھتا چلوں کہ اگر سیٹوں میں کمی نہ کی جاتی تو کیا آپ لوگ مردم شماری کے خلاف اسطرح اکھٹے احتجاج پر اتر آتے ؟؟ وہ بھی تمام اختلافات بُھولا کر!!!!!

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔