چترال پاٹا کا حصہ ہے،اس علاقے میں پاکستان کے کئی قوانین نافذ نہیں ہیں بلکہ یہاں کے لیے الگ قوانین ہیں۔وقاص احمد ایڈوکیٹ

چترال(نمائندہ چترال ایکسپریس)چترال کے معروف قانون دان وقاص احمد ایڈوکیٹ نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ چترال پاٹا کا حصہ ہے جس میں چترال کے علاوہ اپر دیر، لوئر دیر، ملاکند، سوات، شانگلہ اور بونیر کے اضلاع شامل ہیں۔ اس علاقے میں پاکستان کے کئی قوانین نافذ نہیں ہیں بلکہ یہاں کے لیے الگ قوانین ہیں۔ ان کا مقصد اس پس ماندہ علاقے کے لوگوں کو رعایتیں فراہم کرنا تھا۔ بدقسمتی سے چترال میں ان قوانین میں سے کئی غیر اعلانیہ طور پر نافذ کیے گئے ہیں، حالانکہ پاٹا کے دوسرے اضلاع میں یہ نافذ نہیں۔ ان میں چند یہ ہیں: 1. این ایچ اے چترال کے اندر پٹرول پمپوں سے ٹیکس وصول کر رہی ہے، جو پاٹا میں کہیں نہیں لیا جارہا ہے۔ یہاں سڑکوں کی جو حالت ہے اسے دیکھتے ہوئے حکومت کو انہیں سڑک کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ 2. یہاں لوگوں کی آباد زمینات اور گھروں سے بالکل ملحق غیر اباد زمین کو سرکاری تصور کیا جاتا ہے، جن کو نہ صرف پاٹا بلکہ پورے صوبے میں شاملات کہا جاتا ہے۔ 3. چترال کا دریا ہمیشہ اپنا رُخ بدلتا رہتا ہے اور ہر سال آباد زمیں اس کی زد میں آکر بنجر ہوجاتی ہیں۔ پہلے زمانے میں یہ جگہ بدستور انہی لوگوں کی ملکیت میں رہتی تھی اور دریا کے دوبارہ رُخ بدلنے پر انہیں دوبارہ آباد کیا جاتا۔ لیکن اب انہیں River bed قرار دے کر لوگوں سے چھینا جارہا ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں شوگرام کے ایک مقدمے میں سپریم کورت کی واضح رولنگ ہے کہ River bed صرف وہ زمین ہے جس پر دریا بہہ رہا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال صرف چترال میں ہے اور کسی اور علاقے میں نہیں۔ 4. محکمہ معدنیات لوگوں کی زمینات پر پڑے ہوئے پتھروں پر بھی قابض ہورا ہے جو کسی قانون کی رو سے درست نہیں۔ اسی طرح دریا کے ساتھ لوگوں کی کٹاو والی زمینوں میں ریت بجری وغیرہ کو بھی سرکاری تحویل میں لیا گیا ہے۔ ایسا پاٹا میں کہیں بھی نہیں ہورہا ہے۔ ان سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اور نمائیندے نا اہل ہیں اور وہ ہمارے حقوق کی بات نہیں کرسکتے۔ دوسرے علاقوں کے نمائیندے اپنے عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔