چترال کے سیاسی قائدین کادکھ

ان دنوں چترال کے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی تاریخی سیاسی دشمنی(یہاں سیاسی مخالفت کو دشمنی کے طور پرلیا جاتا ہے ) بھلا کر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں کبھی احتجاجی جلسے تو کبھی کارنر میٹنگوں سے عوام کے سامنے اپنی موجودگی کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب سے نئی مردم شماری اورحلقہ بندیوں کے سلسلہ میں چترال سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے خاتمہ کی غیرمصدقہ خبر سامنے آئی ہے تب سے ہمارے سیاسی اکابرین کی نیندین اڑ چکی ہے۔ پچھلے دنوں پشاور میں چترالی سیاسی قیادت کی جانب سے ایک احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کیا گیا بینر میں کچھ یوں لکھا تھا”چترال کی سیٹوں میں کمی ۔۔نامنظور” موجودہ مردم شماری ۔نامنظور ۔نامنظور ،نامنظور۔ نامنظور اہالیان چترال اس کے دو دن بعد ہی پشاور میں ایک اور سیاسی قیادت کی بیٹھک ہوئی جس میں اسٹرینگ کمیٹی تشکیل دی گئی جو کہ آل پارٹیزکانفرنس کرکے سفارشات الیکشن کمیشن آف پاکستان کوارسال کرے گی ۔ یہاں پر بنیادی سوال یہ ہے کہ جب مارچ 2017ء میں مردم شماری کا آغاز ہوا تو اس وقت چترال سے باہر رہنے والے چترالیوں کو شامل نہیں کیا گیا اس وقت یہ نام نہاد لیڈران(چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو) کہاں تھے؟ ان کو احسا س کیوں نہ ہواکہ اس عمل سے چترال سے باہر رہائش پزیر تین لاکھ سے زاید چترالی مردم شماری سے باہر ر ہیں گے؟ الیکشن کمیشن کےعملے نےایسےافراد کو بھی شمار نہیں کیا جوکہ چھ ماہ سے زاید عرصہ سے چترال سے باہر ملازمت یاعلاج معالجہ کے سلسلہ میں رہے۔اگراس وقت ہماری سیاسی قیادت کو سمجھ آتی کہ اس عمل سے ہماری آبادی کم ظاہر ہوگی اور مستقبل میں اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں تو کم ازکم اس وقت کوشش کرکے چترال سے باہر رہائش پزیر چترالی آبادی کو مردم شماری میں شامل کیاجاسکتا تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس کے بعد مردم شماری کے اختتام پرجب غیرسرکاری نتائج آنا شروع ہوئے تب بھی مردم شماری کے نتائج کو چیلنج کرنے کا موقع تھا لیکن لیڈرصاحبان خاموش رہے۔جب انتخابی حلقہ بندیوں کا بل پارلیمنٹ سے منظور ہو گیا اور سوشل میڈیا پر یہ بات گردش کرنے لگی کہ چترال سے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ کوختم کیاجارہا ہے تب سیاست دانوں کے ہوش ٹھکانے لگیں اورپریس کانفرنسز،اخباری بیانات اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ چترال کے کم وبیش دسیوں نام نہاد سیاسی رہنماوں میں سے کسی ایک کو اب بھی انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق ٹیکنیکل امور کا علم نہیں اور نہ ہی ان کو یہ پتہ ہے کہ دراصل حلقہ بندیوں میں تبدیلی ہورہی ہے نہ کہ ایک سیٹ کم کیا جارہا ہے۔اگر اس حوالے سے بروقت اقدامات اٹھائے جاتے توشاید کچھ حاصل ہوتا اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور 14جنوری سےالیکشن کمیشن آف پاکستان نے باقاعدہ نئی حلقہ بندیوں کا آغاز بھی کیا ہے،احتجاجی تحریک اور قراردادوں کا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتاہےاس پر کچھ کہنا مشکل ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔