زیب قرطاس۔۔۔منافق۔

انسان کسی بھی مسئلے پر اپنا ایک خاص موقف رکھتا ہے۔ اگر موقف میں کوئی فرق آئے تو انسانی صفات متاثر ہوتی ہے۔ انسانی صفات کو جاننے کے لئے مولانا  کوثر  نیازی  سادہ سی  مثال بیان کرکے ایک واقعہ کا ذکر یوں کرتے ہیں”  کہ ایک جگہ پر بجلی گھر تعمیر ہو رہا تھا کہ اچانک یہ بحث چڑھ گئی کہ بجلی کس طرح سے پیدا ہوتی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں حاضریں تین گروہوں میں بٹ گئے ، پہلا گروہ یہ رائے رکھتے تھے  کہ بجلی پانی کی دباو سے پیدا  ہوتی ہے جو پریشر سے ٹربائین پر پڑتی ہے یوں بجلی پیدا ہوتی ہے، یہ گروہ ہندو مذہب کے پیرو کار تھے۔ دوسرا  گروہ کاخیال یہ تھا کہ پانی کی دباو کے ساتھ ساتھ تیل بھی محدود مقدار میں درکار ہوتی ہے ، تیل کے بیغیر بجلی ممکن نہیں ، یہ گروہ مسلمان تھے۔ ان کی رائے غلط ہے یا پھر صحیح یہ الگ بحث ہے مگر وہ اپنے ایک  واضح موقف رکھتے ہوئے   اس پر قائم تھے ۔ تیسرا گروہ سے جب پوچھا گیا تو وہ  ادھر اُدھر دیکھنے لگے اور اپنا کوئی واضح رائے قائم نہ کرسکے۔ اس  گروہ کو مولانا موصوف  منافق قرار دیتا ہے ،  جو دونوں طرف دیکھ رہے تھے اور رائے قائم کرنے سے قاصر تھے کیونکہ یہ گروہ ہمیشہ صحیح یا غلط کا فیصلہ کرنے یا پھر رائے قائم کرنے  سے پہلے اپنےذاتی فائدے کا سوچتے ہیں کہ اٹل رائے سے کہیں ہمارے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔”

جس معاشرے میں انسان  صرف نجی املاک کے حصول کو زندگی کا مقصد بناتا ہے  تو  وہاں لالچ اپنے انتہا کو پہنچتی  ہے۔ انسان معاشی لالچ اور حصول املاک کے خاطر اس قدر گر جاتا ہے کہ انسانی خصلت  ہی بدل جاتی ہے۔گو کہ یہ سرمایہ درانہ نظام کی ایک خامی بھی ہے ۔   انسان بسا اوقات مجبور بھی  ہوتاہے  ، مسائل اسے گھیر بھی لیتے ہیں مگر ان مسائل کا مقابلہ کرنا اور ان کے سامنے سینہ تن ہونا ہی اصل  انسانی خصلت ہے۔

انسانی شخصیت کے بارے میں  اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں ہر قسم کی شخصیت کے حامل لوگ موجود ہوتے ہیں جو معاشرے کا حصہ  ہیں۔ کچھ لوگ  خاموش  مزاج ہوتے ہیں اور  اپنے کام سے کام رکھتے ہیں کسی دوسرےکے کام میں مداخلت نہیں کرتے ایک قسم سے دیکھا جائِے تو یہ لوگ تنہائی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ شخصیت کی تعریف میں ماہر سماجی علوم فرائڈان لوگوں کو انا (ایگو) کے زمرے میں شامل کرتے ہیں ۔ ان سے سماج کوکسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا اور نہ کوئی خاطر خواہ فائدہ۔ جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے میں پائے جانے والے خامیوں کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں، معاشرتی کاموں  میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اخلاقی اصولوں، سماجی رسومات و توجیہات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتے  ہیں۔ ایسے لوگوں کو فرائڈ  “فوق انا” کے زمرے میں رکھتا ہے جسے ضمیر بھی کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے لوگ معاشرے کے لئے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں اور ہر فلاحی کام میں حصہ لیتے    ہیں۔ جبکہ معاشرے میں وہ لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جو معاشرے میں موجود تمام برائیوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، اور کبھی کبھی یہ اختلاف رائے رکھنے والوں سے بھی ہاں ملاتے ہیں ، مگر یہ واضح رائے نہیں رکھ سکتے، کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ مفادات کی تحفظ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو منافقوں کے زُمرے میں رکھا جاتا ہے ، علم نفسیات میں اسے اخلاقی منافقت  یعنی (مورل ہائپکریسی)  کا نام دیا گیا ہے ۔ ایسے افراد معاشرے کے لئے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے رائے کا پتہ نہیں چلتا ، یہ سازگار حالات کے انتظار میں رہتے ہیں اور انتہائی موقع پرست ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد جس معاشرے میں بڑھ جاتی ہے وہاں تباہی اور بربادی میں دیر نہیں لگتی۔

 ہمارے لئے تشویشناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جوپورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔یہ لوگ برائی کو صرف اسلئے برا نہیں کہتے کیونکہ برائی کے ساتھ ان کے مفادات جڑے ہوتے ہیں۔ اور تو کبھی کبھار یہ برائی کی دفاع میں اُتر آتے ہیں۔ مگر بحیثیت مجموعی ہمیں ان لوگوں پہ نظر رکھنا ہوگا جو منافقت کے زمرے میں آتے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔