اصلاحات کا نامکمل ایجنڈا

………..محمد شریف شکیب……..
محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے اپنی دو سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صحت کا بجٹ 30ارب 20کروڑ سے بڑھا کر 66ارب 50کروڑ کردیا گیا۔ دو سالوں کے اندر شعبہ صحت میں سات ہزار پچھتر ڈاکٹروں سمیت 22ہزارمختلف اسامیاں پیدا کی گئیں۔ تدریسی اسپتالوں کے علاوہ ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں، ریجنل ہیلتھ سینٹرز اور بنیادی صحت مراکز میں لیبارٹریوں کے قیام، ایکسرے، الڑاساونڈ، ای سی جی، ای ٹی ٹی، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی مشینوں سمیت آلات جراحی کی خریداری پر تین ارب روپے خرچ کئے گئے۔ صحت مراکز کا معیار بہتر بنانے کی بدولت تربیت یافتہ عملے سے زچگیاں کرانے کی شرح 48فیصد سے بڑھ کر 72فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ شعبہ صحت کے حوالے سے چودہ قوانین وضع کئے گئے اور صوبے کی 69فیصد آبادی کو علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کی گئیں۔سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات بہتر بنانے ، صفائی کے انتظامات، ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی حاضری یقینی بنانے کے حوالے سے آج صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئی ہے۔ بڑے سرکاری اسپتالوں میں تبدیلی واضح طور پر نظر بھی آرہی ہے۔ سینئر ڈاکٹروں کی اسپتالوں میں پرائیویٹ پریکٹس کی بدولت عام لوگوں کو پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینکوں کی نسبت کم خرچ پر علاج کی بہتر سہولت میسر آگئی ہے۔ ہفتوں ہفتوں اسپتال نہ آنے والے ڈاکٹروں کو اب روزانہ او پی ڈیز اور وارڈوں میں دیکھا جارہا ہے۔ کم عمر بچوں کو لگائے جانے والے ٹیکہ جات کی تعداد بھی چھ سے بڑھا کر دس کردی گئی ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں، ڈسپنسروں ، ٹیکنیشنز اور دیگر طبی عملے کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ تاہم شعبہ صحت میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سرکاری ملازمین کی سوچ اور طرز عمل بدلنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے انہیں احساس دلانا ہے کہ قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں پڑھایا ہے۔ انہیں تربیت دی ہے۔ اب انہیں کسی بھی دوسرے شعبے کے ملازمین کی نسبت بہتر تنخواہیں مل رہی ہیں لیکن روز کسی نہ کسی شعبے کے ملازمین سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں ۔ آئے روز اسپتالوں کی تالہ بندیاں ہوتی ہیں اورمریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔آج بھی دیہی علاقوں کے آر ایچ سیز اور بی ایچ یوز میں ڈاکٹر ڈیوٹی دینے کو تیار نہیں۔ کیونکہ دیہی علاقوں میں شہروں کی نسبت اوپر کی کمائی نہیں ہوتی۔آج بھی محکمہ صحت میں ایسی کالی بھیٹریں موجود ہیں جو نظام کی تبدیلی کے مخالف ہیں۔ وہ سٹیس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی من مانیاں جاری رہیں۔آج بھی سرکاری اسپتالوں کے لئے آنے والی ادویات دکانوں پر بکتی ہیں۔ آج بھی ڈاکٹر کمیشن کی خاطر غیر معیاری فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ادویات مریضوں کو تجویز کرتے ہیں۔ آج بھی پرائیویٹ لیبارٹریوں کے ٹاوٹس اسپتالوں میں مریضوں کو بہلا پھسلا کر غیر معیاری لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرواتے ہیں جہاں کوئی مستند پیتھالوجسٹ نہیں ہوتا۔ ایک ہی ٹیسٹ شہر کی پانچ مختلف لیبارٹریوں کرایا جائے تو سب کے نتائج ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔آج بھی سرکاری اسپتالوں کی ایکسرے، الڑاساونڈ، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی اکثر مشینیں خراب ہونے کی شکایات عام ہیں۔تاکہ مریضوں کو اسپتالوں سے باہر یہ ٹیسٹ کروانے پر مجبور کیا جاسکے۔ غیر تربیت یافتہ دائیوں اور عطائیوں کا کاروبار آج بھی دھڑے سے جاری ہے۔ شعبہ صحت میں اصلاحات پر عوام مطمئن ہیں کیونکہ ان اصلاحات کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچتا ہے۔اصلاحات کے حوالے سے حکومت کو عوام کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ اس عمل کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ اس میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے تاکہ طب جیسے مقدس شعبے کو بدنام کرنے والے مٹھی بھر عناصر کا صفایا کیا جاسکے اور اصلاحات کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ 68سالوں کا گند دو تین سالوں میں اگرچہ صاف نہیں ہوسکتا۔ تاہم قومی خدمت کے جذبے کے تحت بہتری کا عمل جاری رہے تو تبدیلی کا راستہ زیادہ عرصے تک نہیں روکا جاسکتا۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔