دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

…………محمد شریف شکیب………
شاعر مشرق نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’ زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل۔ دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘آج اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم زبانی کلامی ہی کلمہ گو رہ گئے ہیں۔ دلوں اور نگاہوں میں کلمے کی رمق نظر نہیں آرہی۔ آج اخبار اٹھا کر دیکھا تو صفحہ اول پر تین اور صفحہ آخر پر کم سن بچوں اور بچیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے چار واقعات کا ذکر پڑھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا۔مردان میں سات سالہ عاصمہ کی آبروریزی کے بعد قتل کے واقعے کی صدائے باز گشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اور قاتلوں تک پولیس نہیں پہنچ پائی تھی کہ مردان ہی کے علاقہ خرکئی میں آٹھ سالہ بچی کو جنسی ہوس کا نشانہ بنائے جانے کی خبر آگئی۔ قصور میں ننھی زینب کا قاتل تو گرفتار ہوگیا ۔ مگر پے در پے اسی قسم کے واقعات قصور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں رونما ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ اخبار کے صفحہ اول پر کوہاٹ میں میڈیکل کالج کی طالبہ کو رشتے سے انکار پر قتل کرنے کی خبر چھپی ہے۔ جس سے خواتین سے متعلق ہماری قومی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔صنفی امتیاز ختم کرنے اور خواتین اور مردوں کے مساوی حقوق کا دعویٰ کرنے کے باوجود ہم اب بھی عورت کو قابل فروخت شے قرار دیتے ہیں اور اگر خرید نہ سکے تو اسے مسل دینا اپنی مردانگی کا تقاضا سمجھتے ہیں۔اخبار کے اسی صفحے پر ہری پور میں ایک طالب علم کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی خبر چھپی ہے جس میں پولیس کے ایلیٹ فورس کا ایک اہلکار بھی ملوث بتایا جاتا ہے۔ اخبار کے آخری صفحے پر دیر کے علاقہ براول میں پہلی جماعت کے طالب علم کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی خبر شائع ہوئی ہے۔ اسی صفحے پر یہ خبر بھی چھپی ہے کہ آئی جی پولیس نے ایبٹ آباد میں ایک سیاسی رہنما کے بھائی کے گھر میں کام کرنے والی گیارہ سالہ بچی کی پراسرارہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ان واقعات نے والدین کے رونگٹے کھڑے کردیئے ہیں۔ اور اپنے بچوں کے بارے میں فکرمند ہوگئے ہیں ۔ملک میں جنسی زیادتی کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے درجنوں اداروں کے ہزاروں اہلکار بھی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جن کا اولین فریضہ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کرنا ہے۔اس کے باوجود دن دیہاڑے معصوم بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایاجاتا ہے اور پھر گلا گھونٹ کر انہیں موت کی نیند سلادیا جاتا ہے۔کیا یہ حکومت ، انتظامیہ اور قانون کرنے والے اداروں کی سستی، نااہلی، غفلت اور لاپرواہی ہے ۔محراب و منبر سے درس میں کوتاہی ہے۔مدارس و جامعات کے غیر جامع نصاب کا شاخسانہ ہے یا مادیت پرستی کی دوڑ میں لگے ہوئے والدین کی کوتاہی ہے کہ اپنے بچوں کے بارے میں انہیں کوئی فکر نہیں رہتی اور ان کی ساری توجہ مال جمع کرنے پر مرکوز ہے۔درجہ بالا عوامل بھی ہماری من حیث القوم بے راہروی کی وجوہات میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں۔ یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں اخلاقی گراوٹ میں مبتلا کرنے کا منظم منصوبہ بنایاگیا ہے۔ ہم خداپرستی چھوڑ کر ہوس پرستی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ چار پانچ اور آٹھ دس سال کی بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنانا دین اسلام کے آفاقی اصولوں سے نابلد ہونے کا شاخسانہ ہے۔خود کو اشرف المخلوقات کہلانے والے جس بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ ایسی بریریت تو حیوان بھی نہیں کرتے۔ ان سنگین واقعات کی روک تھام کی دنیا کے کسی قانون اور دستور میں شاید گنجائش نہ ہو۔ اس لئے یہ لازم ہے کہ ان واقعات پر سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کرنا چاہئے اور مسئلے کاواحد حل یہ ہے کہ ملزموں کو اسلامی قوانین کے تحت عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔قاتل کا سر قلم کرنے، زانی کو سنگسار کرنے اور چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزائیں جاری کی جائیں تو سالوں اور مہینوں میں نہیں۔ بلکہ چند ہفتوں اور دنوں کے اندر ایسے سنگین جرائم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان واقعات کی وجہ سے نہ صرف پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ قوموں کی برادری میں پاکستان اور مسلمانوں کی رہی سہی ساکھ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اور اس گرتی ہوئی ساکھ کی بحالی اولین قومی ضرورت ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔