داد بیداد…سائبر کرائم اور نئی نسل

5سال کی بچی اپنی ماں سے کہتی ہے اگر تم نے لڈو نہیں دیئے تو میں آنند کے ساتھ بھاگ جاؤ نگی4سالہ بیٹا اپنی ماں سے کہتا ہے تم نے اگر مجھے نئی شرٹ لیکر نہیں دی تو میں جون کی طرح اپنا گلا کاٹ کر خود کو مار دوں گااس طرح کے مکالمے بچوں نے کہاں سے لئے؟معصوم بچوں کے دل میں اس طرح کے خیالات کیوں آنے لگے؟یہ کسی گھر یا محلے کی کہانی نہیں پاکستان کے 4کروڑ بچے اس حملے کی زد میں ہیں اور کسی طوفان ، سیلاب ،سونامی یا زلزلے سے بڑی آفت ہے جنگ سے زیادہ خطرناک عذاب ہے اور زہر سے زیادہ مہلک دشمن ہے20سال پہلے 1998ء کا سال لے لیں اس سال ملک میں ایک ہی مارکیٹ تھی جہاں چیزوں کو چھو کر اور دیکھ کر خریدا جاتا تھابچے کارٹون مانگتے تھے تو ماں باپ ان کو ٹوم اینڈ جیری لاکر دیتے ہیں کوئی اور مناسب کارٹون گیم بازار سے لاتے تھے اپنی مرضی سے لاتے تھے بچوں کی ذہنی تربیت کے لحاظ سے موزون گیم لاتے تھے پھر بچے کو نصیحت کرتے تھے کہ گیم پر وقت کو ضائع نہ کرو،یہ تمہاری آنکھوں کے لئے بھی نقصان ہے تعلیمی سرگرمی سے بھی تمہیں روکنے والا کام ہے ایک گھنٹے سے زیادہ گیم نہ کھیلو2018ء اس قسم کی نگرانی ممکن نہیں رہی3سال کا بچہ یو ٹیوب (youtube) سے گیم ڈاون لوڈ کرتا ہے5سال کی بچی یوٹیوب سے گیم ڈاؤن لوڈ کرتی ہے اس کو سائبر کی دنیا کہتے ہیںcyberکی دنیا ایک خفیہ دنیا ہے جو ہوا میں معلق ہے خیالوں میں ہے، تصورات میں ہے آپ اس کو پکڑ نہیں سکتے پولیس کے حوالے نہیں کرسکتے جیل میں نہیں ڈال سکتے میرے بچے کو یوٹیوب پر جاکر کیا دیکھنا چاہیئے؟کونسا گیم کھیلنا اس کے لئے بہتر اور کونسا گیم اس کے لئے مضر ہے یہ بات کسی بھی ماں اور کسی بھی باپ کے لئے ممکن نہیں کسی استاد کے لئے ممکن نہیں چترال،سوات ، کوہستان ، مانسہرہ،لکی مروت ، کرک ، وزیرستان اور دیر جیسے پہاڑی علاقوں پر بھی شہروں کی طرح تھری جی اور فورجی آگیا ہے وائی فائی دستیاب ہے کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ ، ٹیب اور آئی فون موجود ہے۔ایک متوسط آمدنی والے آدمی کے گھر میں کم از کم دو ایسی مشینیں لائی گئی ہیں جو یوٹیوب کھولنے میں مدد دیتی ہیں شہروں کے اندر گھرانوں میں درجن سے زیادہ موبائل فونز اور دیگرمشینیں پڑی ہوئی ہیں جنہیں 3سال سے لیکر 10سال کے بچے بچیاں آسانی سے استعمال کرتی ہیں اوررات دن استعمال کرتی ہیں میجر صاحب کا اکلوتا بیٹا 3سال کا ہے ڈاکٹر صاحب کی اکلوتی بیٹی 4سال کی ہے آپ ان کے مہمان ہیں چار گھنٹے تک پھول جیسے بچے نہ مہمان کے پاس آئے نہ ان کو ماں باپ کی پیار سمیٹتے،شرارتیں کرتے ، توتلی زبان میں خوبصورت باتیں اور شرارتیں کرتے دیکھاہم ترستے رہ گئے وہ دونوں اپنے اپنے موبائل فون اور ٹیب کے ذریعے گیم کھیلنے یا کارٹون دیکھنے میں مگن رہے یہ گیم کہاں کی ہے یہ جرمنی کے شہر میونخ میں تخلیق کی گئی ہے یہ کارٹون کہاں بنی ہے؟یہ امریکی شہرہوسٹن میں بنی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اور جرمنی میں بچوں کو یہ کارٹون اور یہ گیم دکھانا منع ہے ان کے بچے اپنی عمر کے تقاضوں کے مطابق تعلیم حاصل کرتے ہیں اپنی تہذیب اور اپنی قومی اقدارکے مطابق آگے بڑھتے ہیں سائبر انڈسٹری نے ہمارے بچوں کو تباہ اور برباد کرنے کے لئے کارٹون اور رنگارنگ گیموں کا طوفان ہماری طرف روانہ کیا ہے ہمارے بچے ان کے لئے صارفین کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی انڈسٹری ہماری نئی نسل کی ہڈیوں میں پھل پھول رہی ہے روسی انقلاب کے بانی لینن نے1901 میں اپنی قوم سے کہا تھا’’تم اپنے بچے مجھے دیدو میں تمہیں ایک قوم دے دوں گا‘‘۔آج جرمنی ، فرانس، امریکہ،تائیوان اور برازیل کے صنعتکار، فلمساز اور بزنس مین کہتے ہیں غریب ملکوں کے بچے ہمیں دے دو ہم انہیں گھر میں بیٹھے تباہ و برباد کریں گے ہمیں اگر پتہ لگے کہ افغان مہاجر یا ہندوستانی مہاجر نے بچے کو اغوا کیا تو اس کے خلاف تھانے میں رپورٹ درج کرتے ہیں ایف ائی آر کٹواتے ہیں،اس کو گرفتار کرواتے ہیں مگر یورپ اور امریکہ کا فلمسازہمارے بچوں کو ذہنی طور پر اغوا کرکے کچرے میں ڈالے تو ہم کچھ نہیں کرسکتے سائبر کرائم ہمارے ہاں کوئی جرم ہی نہیں سیاست دانوں نے ہمیں مایوس کیاہے ججوں نے ہمیں مایوس کیاہے لے دے کے پاک فوج ، آئی ایس آئی ، ایم آئی اور اس کے دیگر ضلعی ادارے رہ گئے ہیں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اگر سائبر کرائم کے خلاف ’’ اپریشن ردّ الفساد‘‘کا اعلان کرینگے تو ہمارے بچے ذہنی کوفت ، پراگندگی اور اذیت سے بچ جائینگے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔