خطرناک مرض

اللہ رب العزت کی یہ دنیا مختلف رنگوں سے مزین ہے۔ اس میں پھول بھی ہیں۔ کانٹے بھی،میوہ دار اشجار بھی ہیں اور صدابہار بھی ،پہاڑ بھی ہیں اورڈھلوان بھی پانی کے ابشار بھی ہیں۔ ریگستان بھی۔ نعمتوں میں مٹھاس بھی ہے ترشی بھی کڑواہٹ بھی ہے۔ پھیکا پن بھی، بہار بھی ہے خزان بھی ،گرمی بھی ہے سردی بھی چرندے بھی ہیں درندے بھی،رینگنے والے بھی ہیں اور اُڑنے والے بھی الغرض ہر رنگ اور ہر نقش اپنی جگہ منفرد حیثیت کا حامل ہے ۔ رنگوں کے اس مجموعے میں انسانی بقا کا کوئی نہ کوئی عنصر شامل ہوتاہے۔ اس طرح اس رنگین دنیا کے مکینوں کے خدوخال بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ بنی نوع انسانوں میں جہاں شکل وصورت ،عقل وخرد،قدکاٹ اور مزاج میںیکسانیت نہیں ہوتی اسی طرح فطرت کے اعتبار سے بھی ان میں مماثلت نہیں ہوتی۔ انسانی اوصاف میں اخلاق کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اور اس صفت کے حامل افراد تعظیم و توقیر کے حقدار ہوتے ہیں۔ قرابت داری،باہمی تعلقات،دنیاوی امور کی انجام دہی اورلذت زندگی کی عمارت بھی اخلاقیات اور رواداری کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ ایک بزرگ سے کسی نے ان کی زبان کی مٹھاس اور لذت کا سبب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن انگور کے درخت سے ایک خوشہ کاٹ کر کھایا تو اس کی لذت اور مٹھاس سے بے حد متاثر ہوکر میں نے ٹہنی سے انگور کی مٹھاس کے اسباب دریافت کئے۔ تو ٹہنی نے جواب دیا کہ دھوپ کی سختی صبر سے جھیلی ،اپنا سر ہمیشہ جھکائے رکھا ۔یوں مٹھاس خود بخود مجھ میں رچ بس گئی۔ ایسی ہی مثال ایک انسان کی بھی ہے۔ کہ وہ دوسروں کی تلخ باتوں کا خندہ پیشانی سے جواب دیتا ہے اور ان کے دل دکھانے والے روئے سے درگزر کرتا ہے تب کہیں جاکر وہ ایک سچا اور پرخلوص انسان بنتا ہے۔ اور دنیا اس سے مومن کے نام سے جانتی ہے۔ یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ کے کائنات میں بسنے والاہر ذی روح اپنی بالادستی قائم کرنے کا خواستگار رہتا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے سے کمزور ہم جنس کو ستانے کے لئے سرگرم عمل رہتاہے۔ اور خصوصاً انسان اس معاملے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتااو ر بالادست ہوکر مسرت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اس فعل قبیح پر نادان ہوکر سینہ تان کر چلنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے باہمی رنجشیں اور عداوتین جنم لیتی ہیں اور ایک دوسرے سے نفرت ،بیزاری،عداوت اور دشمنی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس طر ح ایک درخت کا قضیہ سپریم کورٹ تک جا تا ہے ۔ اس لئے مذہب اسلام میں اولین حیثیت حسن خلق کو حاصل ہے جو معاشرتی زندگی میں لطف پیداکرنے کا ضامن ہے۔ اس بنیاد پر اسلام باہمی تعلقات اور رشتووں ناتوں کے انقطاع کرنے والوں کے لئے جنت کی خوشبو سے محرومی کی وعید دیتا ہے۔ محترم مولانا ذولفقار احمد نقشبندی ؒ اپنی کتاب خطبات فقیر کی ایک جلد میں انسانی معاشرے کے اندر پائے جانے والے اس جرم عظیم کے سلسلے میں ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔ کہ خراسان سے ایک شخص مکہ مکرمہ میں جاکر مستقل سکونت اختیار کرتے ہیں۔ اور اپنی دینداری ،پرہیز گاری اور خصوصاً امانت داری کی بنیاد پر پورے مکے میں اس کا چرچا ہوتا ہے۔ لوگ اپنی امانتیں ان کے پاس رکھتے ہیں۔ اس دوران ایک شخص ایک خطیر رقم ا ن کے پاس امانت رکھ کر خود کسی کام کے سلسلے میں طویل سفر پر جاتے ہیں۔ ان کی واپسی سے قبل اس شخص کا انتقال ہوتا ہے اور وطن آنے کے بعد وہ مرحوم کے لواحقین سے اپنی امانت کے سلسلے میں کسی وصیت کے بارے میں پوچھنے پر ان کی طرف سے نفی میں جواب ملتا ہے۔ اور یوں وہ اپنی پریشانی کی رودار مکہ مکرمہ کے فقہا کے سامنے بیان کرکے ان سے رہنمائی کے طالب ہوتے ہیں۔ فقہا کی طر ف سے مرحوم شخص کے دینی اوصاف کے تناظر میں ان کی روح علین میں ہونے کی اُمید پر متاثرہ شخص کو تین رات متواتر تہجد کی نماز کے وقت آب زم زم کے کنوین میں جاکر ان کا نام لے کر پکارنے او ر ان کی طرف سے کسی قسم کے مثبت اشارے کی اُمید دلائی جاتی ہے۔ یوں و ہ شخص اس عمل سے گزرنے کے باوجود بھی کوئی آثار نہ ملنے پر دوبارہ فقہا سے استفسار پر وہ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے انہیں لبنان کے علاقے میں برحوت المعروف جہنم کا کنوان میں جاکر مذکورہ عمل کو دہرانے کو کہا جاتا ہے۔وہ شخص وہان جاکر مجوزہ عمل شروع کرتے ہی کنوین سے مرحوم شخص کی آواز آتی ہے۔ ان سے ’’مسجین‘‘میں جانے کا سبب پوچھنے پر وہ روتے ہوئے کہتے ہیں کہ خراسان کو چھوڑ کر مکہ جاتے وقت اپنے قریبی رشہ داروں سے دنیا وی امور پر قطع تعلق کیا تھا۔ اور دوبارہ انہیں منانے کا موقع نہ ملکر دنیا سے رخصت ہونا پڑا۔ یوں اس جرم عظیم کی پاداش میں حکم دیا گیا کہ قطع تعلق کے مرتکب افراد کسی صورت بھی نرمی کے مستخق نہیں ہوتے اس لئے اس کی روح کو سجین میں رکھا جائے ۔اپنی امانت کے بارے میں استفسار پروہ شخص انہیں اولادپر بھروسہ نہ ہونے کی بنیاد پر گھر کے اندر مخصوص جگے پر زمین میں دفن کرنے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اور یوں واپسی پر وہ شخص اپنی امانت مذکورہ جگے سے حاصل کرتے ہیں۔
فعتبر و یا اولی الالباب
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔