کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں؟

……………محمد شریف شکیب……….

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے صحت کے شعبے میں کافی اصلاحات کی ہیں۔ اسپتالوں میں سٹاف کی حاضری یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک نظام متعارف کرایا ہے جس کی بدولت ہفتوں اور مہینوں بعد نظر آنے والے سینئر ڈاکٹرز بھی اب روزانہ صبح نو بجے نہ صرف حاضری لگانے اسپتال پہنچ جاتے ہیں بلکہ اوپی ڈی اور وارڈوں میں بھی نظر آنے لگے ہیں اور شام کے وقت بھی سینئر ڈاکٹر اسپتال میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے نظر آتے ہیں جس سے شہریوں کو کافی سہولت ہوئی ہے۔اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے علاوہ بوسیدہ وارڈوں کی جگہ جدید سہولیات سے آراستہ صاف ستھرے وارڈز تعمیر کئے گئے ہیں اور صفائی کا عملہ چوبیس گھنٹے کام میں مصروف نظر آتا ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں، لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، ڈسپنسرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی کمی پوری کرنے کے ساتھ ان کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتالوں کے علاوہ اب دور دراز دیہات کے بی ایچ یوز ، آر ایچ سیزاور ڈسپنسریوں میں بھی ادویات اور عملہ دستیاب ہے۔ تاہم آج ہمارا موضوع صحت کی سہولیات نہیں۔ بلکہ وہ کام ہے جس پر محکمہ صحت اور صوبائی حکومت نے ابھی تک توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور وہ سنگین مسئلہ مہلک بیماریوں کی شرح میں تشویش ناک اضافے کی وجوہات کا پتہ چلانا اور اس کے تدارک کے لئے اقدامات کرنا ہے۔خیبر پختونخوا کے شہری علاقوں میں بالعموم اور چترال جیسے دیہی علاقوں میں بالخصوص امراض قلب اور کینسر سے اموات کی شرح میں گذشتہ چند سالوں کے اندر غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران صرف ضلع چترال میں 60سے زیادہ افراد کینسر اور92افراد دل کا دورہ پڑنے سے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں خواتین ، مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔ صحت سے متعلق تحقیق کرنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ مہلک امراض کی بڑی وجہ ہے۔ خصوصی بناسپتی گھی ، کوکنگ آئل، چائے ، مصالحہ جات ، پیکٹ والا دودھ،چائنیز نمک،مٹھائی، بیکری کی مصنوعات،غیر معیاری چپس اور بچوں کے کھانے پینے کی دیگر اشیاء اور سافٹ ڈرنکس میں مضر صحت کیمیکلز کی آمیزش سے لوگوں کا مدافعتی نظام تباہ ہورہا ہے اور وہ مہلک امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔دور افتادہ علاقوں کے اسپتالوں میں ابتدائی مراحل میں مرض کی تشخیص کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہر سانس کے ساتھ ان کی زندگی مختصر ہوتی جارہی ہے۔ جب جسمانی اعضاء جواب دے جاتے ہیں تو انہیں شہر کے اسپتالوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت تک مرض پر قابو پانا ڈاکٹروں کے بس سے باہر ہوجاتا ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ چترال کی سینکڑوں کلو میٹر سرحدافغانستان سے ملتی ہے۔ جہاں پہلے سوویت افواج کے خلاف جنگ اور 2001کے بعد امریکی اور نیٹو فوجیوں اور شدت پسندوں کی طرف سے گولہ بارود اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے چترال سمیت پورے خطے کی فضاء آلودہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔میڈیکل سائنس کی حیرت انگیز ترقی کے اس دور میں کسی بیماری کی وجوہات کا پتہ چلانا اور ان کا تدارک کرنا چنداں مشکل نہیں رہا۔ ضرورت اس سنگین صورتحال پر توجہ دینے کی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے علاوہ عالمی ادارہ صحت ، آغا خان ہیلتھ سروسز ، صحت کے شعبے میں تحقیق اور مدد فراہم کرنے والی این جی اوز اور میڈیکل کالجوں و یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امراض قلب، سرطان، جذام ، گردوں کے ناکارہ ہونے جیسے مہلک امراض کی شرح میں تشویش ناک اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیق کریں کہ دیہی علاقوں میں جان لیوا بیماریوں میں اچانک اضافے کی کیا وجوہات ہیں اور ان سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔ اگرمصلحت آڑے نہ آئے تو لوگوں کو یہ بتانا بھی قومی مفاد کے عین مطابق ہے کہ کس کس کمپنی کی کون کونسی مصنوعات میں زہریلا کیمیکل ملا ہوا ہے۔ ان میں غیر معیاری ادویہ ساز کمپنیوں کے نام بھی شامل کئے جائیں تو قوم کا بھلا ہوگا۔جنہوں نے اپنی غیر معیاری ادویات بیچنے کے لئے طب جیسے مقدس پیشے سے تعلق رکھنے والے بعض معزز لوگوں کا دین ایمان بھی خرید لیا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔