فروغ سیاحت کا منصوبہ

………….محمد شریف شکیب…………
خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے چند ماہ قبل وہ فیصلہ کیا ہے جو اسے پانچ سال قبل کرنا چاہئے تھا۔ صوبائی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لئے عالمی بینک سے پانچ ارب 80کروڑ روپے کا قرضہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت نے چھ ارب اسی کروڑ روپے مانگے تھے اور یہ درخواست بھی کی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن صوبے کا کردار ادا کرنے والے خیبر پختونخوا کی مالی حالت بہتر بنانے کے لئے یہ رقم قرض کے بجائے مالی امداد کے طور پر فراہم کی جائے۔تاہم عالمی بینک پانچ ارب اسی کروڑ روپے کی فراہمی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ صوبائی حکومت کا پروگرام ہے کہ اگر عالمی بینک سے امدادی رقم مل جاتی ہے تو اس میں سے چار ارب دس کروڑ روپے ملاکنڈ، گلیات، کاغان اور ناران کے سیاحتی مقامات تک سڑکوں کی تعمیراور ہوٹلوں کی مرمت پر خرچ کئے جائیں گے۔ ان علاقوں میں موجود سو سال سے زائد پرانی عمارتوں کو اصلی حالت میں بحال کیا جائے گا۔ جن پر ایک ارب دس کروڑ روپے خرچ ہونے کا تحمینہ ہے۔جبکہ سیاحتی مقامات پر رہنے والے لوگوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے ایک ارب دس کروڑ روپے کے بلاسود قرضے دیئے جائیں گے۔ فروغ سیاحت پروگرام کے تحت حجروں کی قدیم روایت کو زندہ کیا جائے گا۔ تاکہ سیاحوں کو ہوٹلوں میں ٹھہرانے کے بجائے ان حجروں میں رہائش فراہم کی جائے اور حجروں کے ساتھ خطے کے عوام کی مہمان نوازی کی روایت سے بھی سیاح لطف اندوز ہوں۔فروغ سیاحت کے پروگرام کی نگرانی کے لئے ملاکنڈ ، گلیات اور کاغان میں اتھارٹیاں بھی قائم کی جائیں گی۔قدرت نے خیبر پختونخوا کو جنگلات، معدنیات، آبی ذخائر کے ساتھ قدرتی حسن سے نہایت فیاضی سے نواز ا ہے۔ نتھیاگلی، ڈونگا گلی، بیرن گلی، ایوبیہ، کاغان، ناران، ٹھنڈیانی سے لے کر بٹگرام، تورغر، شانگلہ اور کوہستان تک ہر طرف دلکش قدرتی مناظر سیاحوں کا دل موہ لینے کے لئے کافی ہیں۔ اگر ملاکنڈ ڈویژن میں جائیں توبونیر، مینگورہ،سیدو شریف، مرغزار، مٹہ ، مالم جبہ، بحرین، کالام، کمراٹ، شرینگل، لواری ٹاپ، مدک لشٹ، برموغ لشٹ، قاق لشٹ، شندور ، تریچ میر اور حسن فطرت سے مالامال وادی کیلاش اپنی مثال آپ ہیں۔ خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات کا مجموعی رقبہ نیپال کے رقبے سے زیادہ ہے۔ نیپال کی پوری معیشت کا انحصار ماونٹ ایورسٹ دیکھنے کے لئے آنے والے سیاحوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے۔ اگر خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات تک رسائی آسان بنانے کے لئے کشادہ سڑکیں بنائی جائیں۔ سیاحوں کی رہائش، سیکورٹی اور دیگر ضروریات کا مناسب خیال رکھنے کا بندوبست کیا جائے تو یہ صوبہ بجلی کی پیداوار، معدنیات اور زرعی پیداوار کی مجموعی آمدن سے زیادہ سیاحت کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں اور ان کا معیار زندگی بہتر ہوسکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت 28مئی کو پوری ہورہی ہے۔ کیا عالمی بینک رواں مہینے یا اپریل تک مطلوبہ قرضہ فراہم کرپائے گا۔ اور اگر رقم فوری طور پر مل بھی جاتی ہے تو کیا حکومت فروغ سیاحت کے لئے وضع کردہ اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کرسکے گی۔ ہم نے چار سال پہلے بھی انہی سطور میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ حکومت تعلیم، صحت اور دیگر سرکاری شعبوں میں اصلاحات کا عمل جاری رکھے ۔ لیکن وسائل کے متبادل ذرائع تلاش کرے تاکہ اسے کلی طور پر وفاق پر انحصار کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ یہ افسوس ناک حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ وفاق اور خیبر پختونخوا میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومت ہو۔ تو ان کی پوری مدت باہمی محاذ آرائی میں گذر جاتی ہے۔ وفاق میں برسراقتدار پارٹی کی حکومت بھی صوبے میں قائم ہو۔ تو سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے تحت خیبر پختونخوا کو اپنی ترجیحات میں سب سے پیچھے رکھتی ہیں۔خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے پہاڑ معدنیات سے بھرے پڑے ہیں۔لیکن روڈ انفراسٹرکچر نہ ہونے اور وسائل کی کمی کے باعث پانچ فیصدمعدنی دولت سے بھی اب تک استفادہ نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح سیاحت کو باقاعدہ صنعت کا درجہ نہ دینے کی وجہ سے ہمارا صوبہ غربت سے نجات حاصل نہیں کرسکا۔حکومت نے سیاحت کو ترقی دے کر صوبے کی معیشت کا قبلہ درست کرنے کا اچھا منصوبہ بنایا ہے۔ تاہم مختصر عرصے میں اس جامع منصوبے پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ یہ کام آنے والی حکومت پر ہی چھوڑ دینا ہوگا تاکہ عجلت میں وسائل کو ضائع کرنے کے بجائے فروغ سیاحت کے نام پر حاصل ہونے والے قرضے کی پائی پائی اس مردہ صنعت میں جان ڈالنے پر خرچ کی جاسکے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔