مکتوبِ چترال….چترال ایک تجربہ گاہ
جب قانون کی بات آتی ہے تو پہلا تجربہ چترال کے پُرامن لوگوں پر کیا جاتا ہے،جب مراعات کی بات شروع ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے مراعات اُس ضلع کے لوگوں کو دیدو ،جہاں بدامنی ہے۔وزیر اعلیٰ نے ریسکیو 1122کا اعلان کیا۔دوسال گذرنے کے بعد صرف چند گاڑیاں آئی۔نہ دفتر ہے نہ عملہ ہے نہ کوئی سہولت ہے۔حکومت نے دوسرے بہت سے اعلانات کئے ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔بازار میں واش روم بنانے کا اعلان ہوا،کام نہیں ہوا،بازار کو سٹریٹ لائٹ دینے کا اعلان ہوا،کام نہیں ہوا،بازار کی نالیوں کو پختہ کرنے کا اعلان ہوا،کام نظر نہیں آیا۔بازار کے لئے مستقل عملہ صفائی مقرر کرنے کا اعلان ہوا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔جہاں فرائض ہوتے ہیں وہاں حقوق بھی ہوتے ہیں۔حکومت تاجروں کو تحفظ اور حقوق نہیں دیتی مراعات نہیں دیتی۔آگ لگنے سے کروڑوں کا نقصان ہوجائے تو انتظامیہ دوپیسے کی امداد نہیں دیتی۔فرائض پر زور دیتی ہے۔تجربہ کرنے کے لئے قوانین کا ذکر ہوتا ہے۔پھر ہرقانون بھتہ خوری کا ذریعہ بن جاتا ہے۔اس وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اعتبار کمزور ہوجاتا ہے۔تاجر برادری اور عوامی حلقوں میں اس وجہ سے تشویش پائی جاتی ہے۔ایسا نہ ہوکہ صوبے کا سب سے پُرامن ضلع بھی ہڑتال اور مظاہروں کی لپیٹ میں آجائے۔آج کل چترال ٹاون پر رحمان بابا کا وہ شعر صادق آتا ہے جس کا ترجمہ کہ حکمرانوں کے ظلم وستم کی یہ حد ہے کہ ہمارا مسکن قبر کے عذاب اور دوزخ کا منظر پیش کرتا ہے۔