ناکامی کا اعتراف

………..محمد شریف شکیب……….
امریکہ کو بالاخر اعتراف کرنا پڑا کہ امریکہ کے حوالے سے پاکستان اور افغان طالبان دونوں کی شکایات جائز ہیں اور امریکہ ان شکایات کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔ جنوبی ایشیائی امور سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی ڈپٹی سیکرٹری الائس ویلس نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران اعتراف کیا کہ افغانستان میں موجود پاکستان مخالف عناصر کے خلاف کاروائی کے لئے اسلام آباد امریکہ اور افغانستان کی طرف دیکھتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی اور دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے پاکستان کو مسائل کا سامنا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ڈپٹی سیکرٹری نے اعتراف کیاکہ سیکورٹی امداد کی معطلی کے باوجود امریکہ پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی لانے میں ناکام رہا ہے۔ افغانستان آپریشن پر اربوں ڈالرزکا نقصان اٹھانے کے بعد امریکی حکام کے ہوش ٹھکانے آگئے ہیں اور وہ افغانستان میں اپنی ناکامی کے معترف ہوچکے ہیں۔ افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی، غربت، بے روزگاری، ناخواندگی اور بار بار بیرونی مداخلت ہے۔ 2001سے اب تک امریکہ نے کابل میں اپنی فوجیوں پر جتنے اخراجات کئے ہیں۔ یہی رقم اگر افغانستان کو امداد کے طور پر دی جاتی۔ تو وہاں درجنوں یونیورسٹیاں، کالج، سکول، اسپتال، کارخانے، سڑکیں اور پل بن چکے ہوتے۔ لاکھوں لوگوں کو روزگار مل چکا ہوتا۔ چالیس سالوں سے جلاوطنی کی زندگی گذارنے والے افغان امن قائم ہونے پر اپنے ملک واپس جاکر اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیتے۔ کابل میں امریکی اشیرباد سے قائم ہونے والی کٹھ پتلی حکومتوں کا کابل سے باہر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ مستقل بدامنی ، غربت، کشیدگی اور بے روزگاری کی وجہ سے طالبان مخالف افغانوں کی ہمدردیاں بھی طالبان کو حاصل ہورہی ہیں۔ افغان سرزمین کو مستقل کشیدگی کا گڑھ بنانے کے لئے امریکہ نے داعش کو بھی اپنی سرپرستی میں وہاں پروان چڑھانا شروع کردیا ہے جس کا اعتراف سابق افغان صدر حامد کرزئی برملا کرچکے ہیں۔ جنگ و جدال اور کشت و خون سے قوموں کے مسائل اور باہمی تنازعات کبھی حل نہیں ہوتے۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ مذاکرات کی میز پر ہی تنازعات کا ’’کچھ دو اور کچھ لو ‘‘کے اصول کے تحت حل تلاش کیا جاتا ہے۔ پانی سر کے اوپر سے گذرنے کے بعد ہی سہی،امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت کو احساس ہوگیا ہے کہ خانہ جنگی کا خاتمہ طالبان سے مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے افغان حکومت نے طالبان کو سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کرلیا ہے اور اس سے خفیہ اور اعلانیہ مذاکرات بھی جاری ہیں۔جو خوش آئند ہے۔ امریکہ پاکستان اور افغانستان کی سہ فریقی کمیٹی کو بھی بااختیار اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں کو جب تک نہیں روکا جاتا۔ اعتماد کی فضاء قائم نہیں ہوسکتی۔اور جب تک اعتماد کی فضاء پیدا نہیں ہوتی۔ مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے۔ افغان حکومت اور امریکہ نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والی قوتوں کو نہ صرف پناہ دی ہے بلکہ ان کی سرپرستی بھی کر رہے ہیں دوسری جانب پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں تیز کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس دوغلی حکمت عملی کے منفی اثرات کا واشنگٹن اور کابل کو احساس ہونا خوش آئند ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں لاحاصل فوجی آپریشن کے مقابلے میں پرامن مذاکرات کو ترجیح دی جائے گی اور افغان کشیدگی کا مستقل حل تلاش کیا جائے گا۔ جو امریکہ، پاکستان اور خود افغانستان کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔امریکیوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ دانستہ غلطی کرتے ہیں اور جب اس کے منفی اثرات خود امریکہ پر پڑتے ہیں تو اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔ یہی کچھ عراق جنگ کے حوالے سے ہوا ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی امداد کی بندش کے باوجود جب امریکہ اسلام آباد کو اپنی پالیسی واشنگٹن کے مفادات کے مطابق تبدیل کرانے میں ناکام رہا۔ تو اسے پاکستان کے قومی مفادات کا احترام کرتے ہوئے سیکورٹی امداد کی بحالی کے ساتھ اشتراک عمل کو مزید تیز کرنا چاہئے ۔ تاکہ دہشت گردی کے خاتمے اور پائیدار امن کی بحالی کے مشترکہ مقاصد کے حصول میں مدد مل سکے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔