دھڑکنوں کی زبان……… سننے کی باتیں

ٹی وی کا بھلا ہو کہ ہمیں وقت گذاری کا موقع فراہم کرتی ہے ۔۔ہم بلغمی مزاجوں کے لئے اچھل کود میں کوئی کشش نہیں البتہ اس پاک دھرتی کا سوچتے ہیں تو کس ترقی، خوشحالی،حفاظت کا سوچتے ہیں ۔۔یہ سب کچھ جن لوگوں کے ہاتھ میں ہیں ان کا سوچتے ہیں ۔۔تجسس ہوتی ہے کہ کس نے کیا کیا ۔۔کس کی سوچ میں تعمیر زیادہ ہے کون تحریب کا سوچتا ہے ۔۔کون ہے جسے دشمن کے مکروہ خیالات اور غلیظ سوچوں کا علم ہے ۔۔کو ن اس خاک کے لئے قربانی کا کتنا جذبہ رکھتا ہے ۔۔کون اس کے اثاثوں کو امانت سمجھتا ہے ۔۔کون ہے جو اپنے کام سے کام رکھتا ہے ۔۔کو ن سچا خادم ہے ۔۔کون صادق امین ہے ۔۔کس کے پاس اتنی جرائت ہے کہ وہ صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دے ۔۔کس کس کو انصاف پسند ہے ۔۔کون جمہوریت کے حق میں ہے ۔۔کو ن ہے جو اقتدار کی کرسی کو امانت سمجھتا ہے ۔۔کون کس کام کا اہل ہے ۔۔کس کے پاس کتنی معلومات ہیں ۔۔ یہ سب جاننے کو دل کرتا ہے ۔۔اس کے لئے ہم ٹی وی کے پروگرام ’’ٹاک شو۔۔ٹیبل ٹاک ‘‘وغیرہ سنتے ہیں چونکہ اردو سے ہمارے تعلقات اچھے نہیں اور پھر ہمیں اپنی قابلیت بھی دیکھانی ہے کہ ہمیں انگریزی کتنی آتی ہے اس لئے مذاکرہ ۔۔مہرکہ ۔۔گفتگو۔۔سوال و جواب ۔۔رائے زنی ۔۔گپ شپ ۔۔گفت و شنید۔۔ تبادلہ خیال وغیرہ نہیں کہیں گے ۔۔کوئی انگریزی کا بھونڈا لفظ استعمال کرینگے ۔۔میں انہی ٹاک شو کے لئے یہ مرکب لفظ استعمال کیا ۔۔’’سننے کی باتیں‘‘ ۔۔کیونکہ اس میں لوگوں کو بلایا جاتا ہے کہ کوئی سننے کے قابل بات کہے ۔۔مختلف شعبوں سے لوگ بلائے جاتے ہیں ۔۔ان سے سوالات ہوتے ہیں ۔۔ان کے جوابات سناجاتا ہے ۔۔وقت ختم ہوتا ہے ۔۔میزبان اور مہمان دونوں پر پیسارے اٹھتے ہیں ۔۔پردہ گرتا ہے ۔۔۔پس پردہ کی دنیا سے ہم واقف نہیں ۔۔کہ یہ گپ شپ لگانے والے سیاستدان ،بیروکریٹ ،ٹیکنوکریٹ،عالم فاضل لوگ کتنے سچے کھرے ہیں ۔۔مگر ہم پر رعب جماتے ہوئے وہ کبھی پھسل پھسل جاتے ہیں ۔۔سب سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ چھپارہے ہیں ۔۔کسی ان کہی پہ پردہ سرکا رہے ہیں ۔۔کوئی چیز ہے جو ان کی زبان تک آتے آتے رک جاتی ہے ۔۔ان کا نطق گنگ ہو جاتا ہے ۔۔ان کی قوت گویائی غائب ہوتی ہے ۔۔وہ بے بس دیکھائی دیتے ہیں ۔۔بجائے اس کے کہ وہ اگر سچ بولتے تو ہمیں ان پہ پیار آتا ۔۔ہمیں ان سے ہمدردی ہوتی ۔۔ہم ان کی مجبوریاں سمجھتے ۔۔محسوس کرتے ۔۔ان کی قدر ہوتی ۔۔وہ کہتے کہ گزشتہ حکومت نے یہ یہ کام کیے باقی ادھورے ہیں ہم انشا اللہ ان کو پورا کریں گے ۔۔ہم سے یوں سیاسی غلطی ہوئی ہم کوشش کرینگے کہ پھر سے ایسی غلطی نہ ہوجائے ۔۔ہم اپنی دھن دولت اس ملک کی طرقی کے لیے خرچ کرینگے ۔۔یہ ملک ہمارا ہے ہم اس کی خدمت مل کر کرینگے ۔۔قانون آزاد ہے۔۔ عدالت سپریم ہے ۔۔انصاف شرط ہے ۔۔ادارے آزاد ہیں ہر ایک کا اپنا فرض منصبی ہے ۔۔وہ اس کے لئے قانون اور عوام کے سامنے جواب دہ ہے ۔۔یہ سب سننے کی باتیں ہیں اور یقین کرنے کی باتیں ہیں ۔۔مگر ایسا نہیں ہوتا ۔۔باتیں سب ماورائی ہوتی ہیں ۔۔اس لئے سننے سے صرف کان پکتے ہیں اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔۔ہمارے پاس وہ سیاسی شعور آتی ہی نہیں ۔۔میرے محترم بھائی صلاح الدین صالح کہتے ہیں کہ میں نے پہلا ووٹ ۱۹۸۵ ء میں ڈالا اس وقت سے آج تک مسلسل ووٹ کاسٹ کر رہا ہوں لیکن میں نے نہ معاشرے میں کوئی تبدیلی دیکھی نہ سسٹم میں نہ عام لوگوں کی زندگیوں میں ۔۔ہاں البتہ قوم کے نمائندوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی دیکھی ۔۔جس کے پاس پیسہ نہیں تھا پیسہ آگیا ۔۔جس کے پاس سواری نہیں تھی۔۔ گاڑی آگئی ۔۔جس کے پاس گھر نہیں تھا۔۔ گھر بن گیا ۔۔جس کے پاس جیب خرچ نہیں تھا۔۔ بنک اکاوئنٹ بن گیا ۔۔یہی تبدیلی میں نے دیکھی ۔۔میرے صلاح الدین بھائی اعلی تعلیم یافتہ ہیں وہ ضارر محسوس کرینگے ۔۔یہ سب تبدیلیاں سب لوگ محسوس کر رہے ہیں ۔۔جو بے خبر ہیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں وہ بھی ۔۔کیونکہ یہ سب کچھ ان کے ارد گرد ہو رہا ہے ۔۔ہماری گذارش ہے اگر کوئی بات کرے تو سچ سچ بات کرے ۔۔۔قران کہتا ہے ۔۔۔سچی بات کرو ۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔