بارڈر پولیس کے ڈیوٹی کے بارے میں ڈی سی،اے سی, اور ڈسٹرکٹ ناظم وضاحت کریں۔وقاص احمد ایڈوکیٹ

 چترال(نمائندہ چترال ایکسپریس) وقاص احمد ایڈوکیٹ نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ بحیثیت قانوں کا ایک ادنی طالب علم مجھے یہ علم ہے کہ سیکورٹی دینا پو لیس کا کام ہے لیکن ہما رے ڈی سی ,اے سی ،ڈسڑکٹ ناظم ہمیشہ اپنے ساتھ باڈرپولیس لیکر پھرتے ہیں اگر ان کو سیکورٹی کی ضرورت ہے تو پو لیس سے مدد حاصل کر سکتے ہیں یہ باڈر کس قانون کے تحت ڈی سی اور اے سی ,ناظم صاحب کے ساتھ پھرتے ہیں اگر وضاحت ہو جائے تو بہتر اور ہمارے علم میں اضافہ ہوگا۔اُنہوں نے کہا کہ ناظم صاحب کو فاتحے کے لیے جاتے وقت باڈر پو لیس کی کیا ضرورت ہوتی ہے اور ڈی سی دورہ کرتےہوے ایک گاڑی میں باڈر لیکر کیوں پھرتے ہیں کیا باڈر صرف اور صرف ڈی سی،اے سی اور ناظم کے سیکورٹی کے لیے برتی ہوئےہیں؟کیا باڈر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کے شکار گا ہوں میں جاکر چھاپہ مارتے پھرے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک باضابط سی آر پی سی نافذہے سی آر پی سی میں باڈر کا کوئی نام نہیں تو یہ باڈر کس قانون کے تحت چھاپہ مارتے ہیں اگر وضاحت ہو تو مہربانی ہوگی تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہواور ہم کو ایسٹا کوڈ کو بھی پڑنے کا شوق ہو گا اُنہوں نے کہا کہ یہ قوم آپ سے سوال کرتاہے آپ کو جواب دینا پڑےگا اور جواب لیتے رہنگےاگر میرے پوسٹ غلط ہے تو مہر بانی کرکے کامنٹس میں لکھیے تاکہ میری اصلاح ہوسکیں اگر پوسٹ درست ہے تو حوصلہ افزائی ہو گی ۔وقاص احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ ایک وکیل کا کام صرف اور صرف فیس لے کر بات کر نا نہیں بلکہ جہاں بھی کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتا ہو تو آوازاُٹھانا وکیل کا فرض بنتاہے اور جہاں بھی بے قاعدگی ہو تی ہو تو آواز اُٹھانا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ائین ہر شہری کو یہ حق دیتاہےمیرا مقصد کسی ادارے پر بےجا تنقید نہیں بلکہ اپنے کنفیوژن دور کرنا اور معاشرے میں اصلاح لاناہے جو زررہ برابر کیوں نہ ہوہماری بد قسمتی یہ ہیں کہ اگر ڈی سی ,سے کسی کو تھو ڑا زاتی فائدہ ہو یا ڈی سی صاحب کیسی کو تھوڑا پروٹو کول دیں تو ہم اپنی زات کو قومی مقصد پر تر جیح دیتے ہیں اور ڈی سی  کا گن گانا شروع کرتے ہیں اور صاحب موصوف کے خوش آمد میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے حالانکہ ہمیں صاحب موصوف کو حقیقت بتانا ہے

 

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔