کچھ تو ادھربھی

………….محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا حکومت نے خپل کور ہاوسنگ سکیم کے نام سے سرکاری ملازمین کے لئے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ منصوبے کی تفصیلات کا اعلان کرتے ہوئے ہاوسنگ سے متعلق وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی ڈاکٹر امجد علی نے بتایا کہ جلوزئی ہاوسنگ اسکیم نوشہرہ، ملازئی سکیم پشاور، حویلیاں ٹاون شپ ایبٹ آباد اور جرما ہاوسنگ سکیم کوہاٹ میں پانچ، سات اور دس مرلے کے پلاٹوں پر مکانات کی تعمیر کے لئے سرکاری ملازمین کو آسان شرائط پر قرضے بھی فراہم کئے جائیں گے جو بیس سال تک واجب الادا ہوں گے۔ آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کے لئے دو نجی بینکوں سے معاہدہ طے پاگیا ہے جبکہ نیشنل بینک اور ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے بھی اس سلسلے میں مذاکرات جاری ہیں۔پانچ مرلے کا مکان بنانے کے لئے اٹھارہ لاکھ، سات مرلے کے لئے پچیس اور دس مرلے کے لئے تیس لاکھ روپے کا قرضہ دیا جائے گا۔وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ خپل کور ہاوسنگ سکیم کی بدولت سرکاری مکانات کے حصول کے لئے دباو میں کمی آئے گی، مارکیٹ میں مکانات کے کرایوں اور قیمتوں میں استحکام آئے گا۔ ملازمین اپنے مکانات بناکر کرائے پر چڑھادیں تو انہیں اضافی آمدنی حاصل ہوگی اور ان کی جائیداد کی قیمت میں بھی روز افزوں اضافہ ہوگا۔سرکاری ملازمین کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ اور مکانات بنانے کے لئے قرضوں کی فراہمی حکومت کا قابل ستائش اقدام ہے۔ صوبے کی تین کروڑ پانچ لاکھ 23ہزار کی آبادی میں سرکاری ملازمین کی تعداد چار لاکھ ہے۔قومی وسائل سے صرف سرکاری ملازمین کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اگر حکومت یہ سہولت معاشرے کے پسماندہ طبقات کو بھی فراہم کرے گا۔ تو غربت کی شرح کم کرنے اور لوگوں کو معیار زندگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس معاشرے میں ایسے طبقات بھی ہیں جو اب تک حکومت کی توجہ حاصل نہیں کرسکے۔ جن میں معذور افراد بھی شامل ہیں۔ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ان شہریوں کے لئے تعلیم ، صحت اور روزگار کی فراہمی کے لئے حکومت نے کوٹہ تو مقرر کیا ہے لیکن اس کوٹے کو عموما چہیتوں کو نوازنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ معذور افراد میں ہزاروں ایسے بھی ہیں جو اپنے خاندانوں کے کفیل ہیں۔ ان کو ہاوسنگ سکیموں میں پلاٹ اور مکان بنانے کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرنے سے ہزاروں مستحق خاندانوں کا بھلا ہوگا۔ اس صوبے میں زلزلوں ، سیلاب، جنگوں، قدرتی اور انسانی آفات سے تباہ ہونے والے خاندانوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ ان کی آبادکاری اور بحالی بھی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ نجی اداروں میں معمولی تنخواہوں پر کام کرنے والے اور دیہاڑی دار مزدور بھی اس معاشرے کے پسماندہ طبقات میں شامل ہیں لیکن حکومت کی کسی فلاحی اسکیم میں ان بدقسمت طبقات کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ ایک فلاحی ادارے نے کچھ عرصہ قبل سیلاب سے بے گھر ہونے والے درجنوں خاندانوں کے لئے پشاور میں ارزاں نرخوں پر پلاٹ لے کردیا۔مگر گذشتہ تین سالوں سے یہ مفلوک الحال متاثرین آسان شرائط پر قرضوں کے لئے مارے مارے پھیر رہے ہیں۔ اورقرضہ نہ ملنے کی وجہ سے چھت کی سہولت سے محروم ہیں۔ حکومت ان متاثرین کو بھی آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کے لئے اقدامات کرے تو بہت سے بے کسوں کا بھلا ہوگا۔سرکاری ملازمین بھی اسی صوبے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ انہیں مراعات مل جائیں تو لاکھوں خاندانوں کی مالی حالت بہتر ہوگی۔ لیکن قومی وسائل صرف سرکاری ملازمین پر لٹانا کہاں کا انصاف ہے۔جبکہ وہ اچھی خاصی تنخواہیں اور دیگر بے شمار مراعات کے پہلے سے حق دار ہیں۔قومی وسائل پر پوری قوم کا حق ہے۔ اس صوبے کے غریب اور پسماندہ طبقات تحریک انصاف کی حکومت سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سب کے ساتھ یکساں انصاف کیا جائے۔ یہ غریب مزدور، محنت کش، معذور افراداور خواجہ سراء بھی اسی صوبے کے باسی ہیں۔ وہ بھی قومی وسائل میں حصہ ملنے کے اتنے ہی حق دار ہیں۔ جتنا حق گورنر، وزیراعلیٰ، صوبائی وزراء، معاونین، مشیروں، اراکین اسمبلی، منتخب نمائندوں، اعلیٰ و ادنیٰ افسراں اور سرکاری ملازمین جتاتے ہیں۔ ان پسماندہ طبقات کی بس یہی آرزو ہے کہ حکومت بیشک اپنے چہیتوں پرپھول نچھاور کرے اور پھلوں کے ٹوکرے بھی انہیں تحفے میں دیدے ۔لیکن کچھ بچا کھچا ان کے لئے بھی بچا کر رکھے تاکہ ان کے جسم و جان کا تعلق برقرار رہ سکے۔۔بقول شاعر
اوروں کی طرف پھینکتے ہیں گل بلکہ ثمر بھی
اے خامہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔